جس طرح دوا سازی کے لئے کیمیائی علوم سے آگہی لازمی ہے ٗ جس طرح سڑکوں یا عمارات کی تعمیر کے کام میں سول انجینئروں کی شمولیت ناگزیر ہے اور جس طرح امراض کی تشخیص اور علاج کے لئے ڈاکٹر ی کی سند رکھنا ضروری ہے ٗ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کی درست تشکیل تاریخ کا شعور دنیا کے حقائق سے آگہی اوردوست دشمن کی واضح اورغیر مبہم پہچان رکھے بغیر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں یہاں میں ڈاکٹر ہنری کسنجرکی مثال دوں گا جنہوں نے 1960ء کی دہائی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کو جس سمت میں لے جانا شروع کیا اُسی سمت میں آج کا امریکہ بھی جارہا ہے۔ ڈاکٹر کسنجرسے پہلے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر جان فاسٹرڈلس نے بھی بڑے گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ یہ جان فاسٹرڈلس ہی تھے جنہوں نے کرہء ارض پر امریکی سرمائے اور امریکی سوچ کی حاکمیت اور برتری کو اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ہدف قرار دیا۔ اسی ’’ ہدف ‘‘ کو ڈاکٹر ہنری کسنجر نے ایک ڈاکٹر ائن )نظریہ (کی شکل دی۔
میرا مقصد یہاں امریکہ کی خارجہ پالیسی کا احاطہ کرنا نہیں ۔ میرا موضوع ’’ خارجہ پالیسی ‘‘ کی ترکیب کے عمومی مفہوم اور پاکستان کے حوالے سے اس کے مخصوص ٗ تقاضوں پر روشنی ڈالنا ہے۔ اور اس ضمن میں ڈاکٹر ہنری کسنجر کا تذکرہ خود بخود اس لئے ہوا ہے کہ جس سٹیٹمنٹ کے ساتھ میں نے اس تحریر کا آغاز کیا ہے اس کا مقصد و مفہوم کھل کر سامنے آجائے۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر رچرڈ نکسن کے دورِ صدارت میں امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ یعنی وزیر خارجہ رہے۔ مگر انہوں نے شاہراہِ وقت پر امریکہ کیلئے جس راستے کا انتخاب کیا اس راستے سے امریکہ اب تک نہیں ہٹا حالانکہ اس دوران مختلف مزاجوں کے صدور وہائٹ ہائوس میں براجمان ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر کی بصیرت اور فراست سے استفادہ نکسن سے لے کر اوباما تک ہر صدر نے کیاہے۔ اِس صدی کے آغاز پر ڈاکٹر ہنری کسنجر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھاDoes America Need A Foreign Policy ? )کیا امریکہ کو کسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے ؟ (اس کتاب کا ثانوی عنوان تھا۔
Towards a Diplomacy for the 21st Century
)اکیسویں صدی میں سفارتکاری کے آداب(
اِس کتاب میں ڈاکٹر ہنری کسنجر کا زور زیادہ تر اس دلیل پر تھا کہ اب چونکہ امریکہ کو کرہء ارض پر ایک غالب قوت اور واحد سپر پاور کا مقام حاصل ہوچکا ہے ٗ اس لئے اسے خارجہ تعلقات کے میدان میں اپنے راستے بنانے یا راستے نکالنے کیلئے زیادہ عرق ریزی نہیں کرنی ہوگی۔ حالات و واقعات کا بہائو خود بخود امریکہ کو درست سمت میں لیتا چلا جائیگا۔ بس امریکہ کو ایک بات اپنے مدنظر ضرور رکھنی ہوگی اور وہ یہ کہ دنیا میں اپنا عسکری و سیاسی غلبہ قائم رکھنے کا ہدف اس کی نظروں سے کبھی اوجھل نہ ہو اور وہ اپنے دوست اور اپنے دشمن خود اپنے مفادات کی روشنی میں منتخب کرے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اُن عوامل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے جو عوامل اس کے عالمِ وجود میں آنے کے عمل کے پیچھے کارفرما تھے۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے راستے قدرت نے خود ہی اس کے عالمِ وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ متعین کردیئے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے راستوں اور اس کی منزل کا تعین اسی روز ہوگیا تھاجس روز اس کے بانی قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا۔’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔‘‘ یہ محض ایک شاعرانہ سٹیٹمنٹ نہیں تھی تاریخ اور جغرافیے کا گہرا ادراک اور شعور رکھنے والے ایک ایسے قومی رہنما کا دریافت کردہ ’’ سچ ‘‘ تھا جس نے ہندوئوں کے درمیان رہ کر ہندو ذہنیت کو دیکھا پرکھا اور جانا تھا ۔ قائداعظم ؒ جانتے تھے کہ ’’ تقسیمِ ہند ‘‘ کا زخم بھارت ماتا کے سپوت اور نیتا کبھی ہضم نہیں کریں گے اور اُن کا پہلا وار پاکستان کی شہ رگ پر ہوگا۔ قدرت کو منظور نہیں تھا کہ ’’ نوزائیدہ پاکستان ‘‘ کی افزائش قائداعظم ؒ کے زیر سایہ ہوتی۔ ایک المیہ ہمارے ساتھ یہ ہوا کہ جب پاکستان نے اپنی شہ رگ کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی تو اس کے عسکری وسائل ناگفتہ بہ تھے اور اس کی فوج کی کمان فرنگی ہاتھوں میں تھی۔
پنڈت نہرو کو سیکولر سیاست کا علمبردار سمجھا جاتاہے مگر جس عجلت کے ساتھ موصوف نے اپنی افواج سر ی نگر میں اتاریں اور جس آہنی قوت کے ساتھ پاکستان کی شہ رگ کو بھارتی سنگینوں کے نرغے میں لے لیا گیا اس سے نیو دہلی کے دور رس عزائم کا اندازہ اسی وقت ہمیں ہوگیا تھا۔مشہور برطانوی صحافی اور تجزیہ نگار لیونا رڈ موسلے نے اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ جس رات سری نگر کو بھارت کے فوجی کنٹرول میں لینے کا فیصلہ کیا گیا اس رات بھارتی نیتائوں کے درمیان خاصی بحث ہوئی تھی۔ حیرت کی بات یہاں یہ ہے کہ وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل ایسے انتہائی اقدام کے پرُ جوش حامی نہیں تھے لیکن سیکولر نہرو نے بڑے فیصلہ کن انداز میں کہا تھا۔ ’’ برصغیر کا مستقبل وہی ہاتھ کنٹرول کریں گے جن ہاتھوں میں کشمیر کی چابی ہوگی۔ پاکستان وجود میں آچکا مگر اس کی بقاء کے سامنے سوالیہ نشان تو کھڑا کیا جاسکتا ہے۔! (جاری)
تاریخ کا مینڈیٹ کچھ اور ہے …
May 31, 2014