واشنگٹن (ثناء نیوز) امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کوئی بھی ڈرون حملہ نہیں کیا گیا تاہم سی آئی اے نے پاکستان میں ڈرون مشن کے اختتام کا باقاعدہ کوئی اعلان نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی جانب سے پاکستان میں ٹارگٹڈ ڈرون حملوں کا پروگرام مزید جاری نہ رکھتے ہوئے اُسے بند کردیا جائے گا۔ امریکی حکام نے باقاعدہ طور پر تو اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا لیکن رواں ہفتے امریکی صدر بارک اوباما نے 2016ء کے اختتام تک افغانستان سے تمام امریکی دستوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔ یہ ٹارگٹڈ حملوں کا انحصار افغانستان میں موجود امریکی اڈوں سے ملنے والی خفیہ اطلاعات اور اڑنے والے ڈرون طیاروں پر تھا جو اس وقت تک بند ہو جائیں گے۔ ایک امریکی عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی مسلح ڈرون طیارے اب بھی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پرواز کرتے رہتے ہیں اور سی آئی اے افسران کی جانب سے شدت پسندوں کو اہداف بنانے کی فہرست کی تیاری بدستور جاری ہے تاہم گزشتہ پانچ ماہ سے ڈرون طیاروں کے ذریعے کوئی میزائل فائر نہیں کیا گیا۔ امریکی عہدیدار نے کہا کہ اس تبدیلی کے بہت سے اسباب ہیں جیسے پاکستان میں موجود متعدد القاعدہ رہنما مارے جا چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں انہیں نشانہ بنانا انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہ موبائل کے استعمال سے احتیاط اور بچوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقے بھی ماضی کی نسبت اب القاعدہ کا گڑھ نہیں رہے، انتہاپسند اب شام اور یمن منتقل ہو چکے ہیں جو جزیرہ نما عرب میں ان کا گڑھ بن چکا ہے اور امریکہ نے انہیں مستقبل میں ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ اس معاملے پر سی آئی اے اور وائٹ ہاؤس نے ردعمل دینے سے انکار کردیا۔اے پی اے کے مطابق ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں زیادہ تر دوسری عمارتوں کی بجائے رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔60 فیصد حملوں میں گھریلو عمارتوں کو ہی نشانہ بنایا گیا، 380 ڈرون حملوں میں جاں بحق 1500 افراد میں سے 222 سویلین تھے۔ لندن کی گولڈ سمتھ یونیورسٹی کے بیوو وفورنسک آرکیٹیکچر اور امریکی ادارے سٹیوا ریسرچ کی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی 10 سالہ مہم کے بارے میں کی گئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ طیاروں نے پہاڑوں میں دہشت گردوں کی بجائے زیادہ تر رہائشی مکانات کو نشانہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق گو کہ 2008ء میں رہائشی گھر وں پر حملے کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی تاہم سی آئی اے نے پھر بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور شہریوں کی زندگیاں بچانے کی بجائے گھریلو عمارتوں کو ہی براہ راست نشانہ بنایا جاتا رہا۔