کبوتر ایک صوفی پرندہ ہے۔ اولیاءکرام کے مزاروں پر اپنا ٹھکانہ بناتا ہے۔ بہت معصوم اور خوبصورت امن دوست پرندہ ہے۔ اس کی غٹرغوں بھی سماعت کو پسندیدہ ہے۔ پہلے کبوتر پالنے کا بہت رواج تھا۔ یہ گھریلو مزاج کا پرندہ ہے۔ روایت میں ہے کہ اسے اپنے محبوب یا دوست کو پیغام پہنچانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا
ایک بڑی خوبی کبوتر میں ہے کہ یہ اڑان بہت خوبصورتی سے بھرتے ہیں۔ جتنی بھی دور چلے جائیں جتنی دیر لگائیں مگر واپس اپنے ڈیرے پر آ جاتے ہیں۔
ایک کبوتر پاکستان سے اڑان بھر کے بھارت کی سرحد پار کر گیا۔ اسے ہندوﺅں نے پکڑ لیا اور ان کی خفیہ ایجنسیوں نے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ یہ پاکستانی جاسوس ہے۔ اس کے جسم کے مختلف حصوں میں نامعلوم نشانات ہیں جو جاسوسی کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں بھارت کی پاکستان دشمنی کی عادتیں دیکھیں کہ ایک معصوم پرندے کو بھی ملوث کر لیا گیا ہے وہ پاکستان سے اڑ کر بھارت چلا گیا ہے تو کیا اب پرندوں کے لئے بھی ضروری ہو گا کہ وہ ویزہ لگوا کر بھارت جائیں۔
کون کہتا ہے کہ پرندوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اب بھارت کے ایجنٹوں اور کئی سیاستدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان بھارت کی سرحد کو وہ صرف لکیر کیوں کہتے ہیں۔ اس لکیر کو متعصب اور پاکستان دشمن ہندو کیا ہے کیا بنا دینا چاہتے ہیں۔ مفادات کی لکیر کے فقیر اس حوالے سے سوچیں ضرور کہ اب بات کہاں تک چلی گئی ہے۔
میں ایک دفعہ بھارت گیا تو متعصب بھارتی بہت پاکستانیوں کو اپنے مطلب کے لئے کرپٹ کرنے والے ہندو کیا کچھ کرتے ہیں۔ وہ بار بار پاکستانی سرحد کو لکیر کہتے تھے اور کہتے تھے کہ شعر و ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ وہاں بے پناہ اعلیٰ شاعر اور مزاح کو ایک توقیر دینے والے ضمیر جعفری نے کہا کہ ”شعر و ادب کی سرحد نہیں ہوتی مگر شاعر اور ادیب کی سرحد تو ہوتی ہے۔ آپ کرشن چندر کو بھارتی ادیب کہتے ہیں۔ منیر نیازی کو پاکستانی شاعر کہتے ہیں۔ ان کی کوئی پہچان تو ہے شعر و ادب کے لحاظ سے بھی برطانوی اور چینی شعر و ادب اور اس کی ادبی تاریخ تو ہوتی ہے۔ روسی ادب کبھی امریکی ادب کے ساتھ منسلک کرکے نہیں پڑھا جا سکتا۔
تو اب یہ بھی ثابت ہو گیا کہ پرندے بھی اور خاص طور پر کبوتر سرحدوں کے مالک ہیں۔ یہ تو بھارت نے مان لیا کہ کبوتر پاکستانی کبوتر ہے۔ پتہ نہیں اس کبوتر سے تفتیش کس طرح کی گئی ہو گی اور اسے بھارتی ظالموں کے تشدد سے گزرنا پڑا ہو گا۔ بھارت والے تو کسی پاکستانی کا پاسپورٹ گم ہو جانے کی وجہ سے اور غلطی سے سرحد پار کرنے والوں کو بھی پکڑ کر جیل میں ڈال دیتے ہیں اور وہ بے رحمانہ تشدد اور انتہائی ناروا سلوک سے تنگ آ کر بھارتی جیلوں میں تڑ پ تڑپ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اب بھی بھارتی جیلوں میں کئی ایسے بے خبر اور بے گناہ پاکستانی موجود ہیں۔
مجھے شکرگڑھ سے نوائے وقت کے نمائندہ ندیم اختر ندیم نے فون کرکے بتایا کہ یہاں سرحدی قصبے شکرگڑھ ضلع نارووال میں کبوتر بازی کا مقابلہ ہوا تھا۔ ارشاد نامی ایک دوست کا کبوتر اپنی پرواز کے زور میں سرحد پار کر گیا جسے بارڈر پولیس اور خفیہ اداروں نے پکڑ لیا۔ کبوتر کے پاﺅں میں ایک انگوٹھی نما چیز ہو تی ہے جس میں مالک کا پورا پتہ اور فون نمبر لکھا ہوتا ہے تاکہ وہ گم ہو جائے تو اصل آدمی تک پہنچایا جا سکے۔ ہندوﺅں میں اگر سفارتی آداب اور سرحدی معاملات کا سلیقہ ہوتا تو وہ یہ کبوتر واپس پاکستان میں پہنچا دیتے۔ انہوں نے جاسوس سمجھ کر بے چارے معصوم کبوتر پر تشدد کیا اور اسے تفتیش کا نام دے کر پاکستان کو بدنام کرنا شروع کر دیا۔
ان حالات میں بھارت سے کس طرح کسی قسم کے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ پہلے کبھی مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلا ہے؟۔ بھارت جیسے ملک کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے کوئی اچھی امید رکھی جا سکتی ہے؟ بھارت صرف دشمن ہے صرف دشمن! چین اسے ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ انشاءاللہ امریکہ بھی جلدی اس کی ذہنیت اور اصلیت جان جائے گا۔
میں یہاں آپ کو صحافت کے میدان میں چٹان کی طرح ڈٹ جانے والے خطیب اور ادیب شاعر شورش کاشمیری کا ایک جملہ سناتا ہوں۔
”درد ایک امانت ہے اور اسے صرف اپنوں کے ہی حوالے کیا جا سکتا ہے“۔ شورش کی یہ بات بامعنی ہے مگر حکمرانوں میں درد کو سمجھنے والا ہی کوئی نہیں۔ اس میں بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کی تخصیص نہیں ہے۔ جو بااختیار ہیں وہ بے عشق ہیں۔ تو پھر زندگی شرمندگی بن گئی ہے۔ جذبے سے خالی لوگوں نے ہمیں برباد کر دیا ہے۔ مرزا غالب یاد آتا ہے
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد ِ لادوا پایا
بہت دور شہر مظفر گڑھ سے ایک محترمہ خاتون دردانہ نوشین خان نے مجھے بہت پہلے اپنا شعری مجموعہ ”پھولوں کی رفوگری“ بھیجا تھا۔ اس شاعری میں عجیب سی خوشبو تھی جو ویرانے میں بارش کی پہلی پھوار کے بعد اٹھتی ہے اور سرشار کر دیتی ہے۔ دردانہ نوشین خان کا تیسرا افسانوی مجموعہ شائع ہوا ہے۔ ”ریگ ماہی“ اس میں رائٹنگ ٹیبل کے نام سے افسانہ بھی شامل ہے جس کا سندھی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے مجھے ایک خط لکھا ہے جس میں ایک انوکھے اور ان دیکھے درد کی کسک ہے۔ جو مضافات میں رہنے والے بہت اچھے ادیبوں کے لفظوں میں مچلتا ہے مگر یہ اصل تخلیقی لوگ ہیں پوری طرح متعارف نہ ہو سکنے کی محرومی کے باوجود لکھتے رہتے ہیں۔ مجھے میانوالی کی ایک ایسی بیٹی نے خط میں ایک خوبصورت نظم لکھی تھی۔ ایک مصرعہ مرے دل پر نقش ہو گیا۔
بڑے لوگوں کو چھوٹے شہر کیوں اچھے نہیں لگتے
میں بڑا آدمی نہیں ہوں اور ایک چھوٹے شہر موسیٰ خیل ضلع میانوالی سے لاہور آیا ہوا ہوں۔ لاہور میں سب مصروف اور مذکور آدمی چھوٹے شہروں سے آئے ہوئے ہیں۔ میں دردانہ نوشین خان کو بہت شاندار کتاب کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ ایک معلوم درد مندی کے لئے نامعلوم کی طرف سفر بڑا ضروری ہے۔