کل شب مَیں نے ایک نیوز چینل پروفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کی پرفارمَینس دیکھی۔ انہوں نے مناظرے میں حزبِ اختلاف کے تینوں ارکان کو ہرا دِیا تھا۔ اُن کے ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنابِ ڈار نے اُن کو بولنے کا موقع ہی نہیں دِیا۔ شمّعِ محفل کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور موصُوف بار بار مداخلت کرنے والے اینکر پرسن کو بھی ڈانٹ کر چپ کرا رہے اور فرما رہے تھے کہ ”نئے مالی سال کا قومی بجٹ ہی وہ معاشی دھماکا ہوگا جِس کی وزیراعظم نواز شریف قوم کو گذشتہ دو سال سے نوِید دے رہے ہیں۔ اِس دھماکے کے بعد پاکستان کے اُمراءاور غریب غُرباءکے ہاتھوں پر کھینچی گئی امارت اور غُربت کی لکیریں خود بخود مِٹ جائیں گی اور قائداعظم کا پاکستان حقیقی معنوں میں جنتّ نظِیر بن جائے گا“۔ ڈار صاحب کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن اچانک بجلی چلی گئی۔
پھر مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا شہر ہے (اسلام آباد یا اسلام آباد کی طرح کا) دُکانیں اشیائے ضروریہ سے بھری ہیں اور وہاں سے زرق برق لباس پہنے گاہک خریداری کر رہے ہیں۔ وہ اشیاءخرید کر دُکانداروں کو بڑے کرنسی نوٹ دیتے ہیں اور بقایا نہیں مانگتے۔ دُکاندار گاہکوں کو جُھک جُھک کر سلام کر رہے ہیں۔ اُدھر سے وزیراعظم میاں نواز شریف کی سواری گُزرتی ہے، وزیراعظم ایک خوبصورت بگھّی پر سَوار ہیں۔ اُن کے دائیں اور بائیں جناب محمد اسحاق ڈار قومی بجٹ کی کاپی اور وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ”حیّیٰ اُلصلواة“ کا پرچم تھامے کھڑے ہیں۔ بازاروں اور سڑکوں میں کھڑے لوگ ”وزیراعظم زندہ باد“ کے نعرے لگانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جا رہے ہیں۔
کئی دُکاندار اپنی دکانوں سے اُٹھ کر وزیراعظم کے ہاتھ چومنے یا اُن سے مصافحہ کرنے کے لئے اُن کی سواری کے قریب جاتے ہیں۔ ایک انار سو بیمار کی کیفیت دیکھ کر سکیورٹی گارڈز کو وزیراعظم کے عقیدت مندوں پر ہلکا سا ”دوستانہ لاٹھی چارج“ کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم اپنے دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر اور زندہ باد کے نعروں کے سرُور میں عوام کی طرف مسکراہٹوں کے پھول نچھاور کرتے ہُوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
پھر منظر بدل گیا۔ مَیں مسلم لیگ (ن) کے سنٹرل سیکرٹریٹ کے سامنے ہوں۔ سیکرٹریٹ کے باہرمَیں نے صاف سُتھرے کپڑے پہنے بزرگ شہریوں ( مردوں اور عورتوں )کی الگ الگ قطاریں دیکِھیں اور وفاقی وزراءمسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ عہدیدار، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، اُن کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور وزیراعظم کے داماد کیپٹن(ر) محمد صفدر، بزرگ شہریوں میں دس دس مرلے کے ایک پلاٹ کے کاغذات اور دس دس لاکھ روپیہ نقد تقسیم کر رہے ہیں اور اُس کے ساتھ ہی ایک ایک مِنرل واٹر کی بوتل بھی۔ پھر لاﺅڈ سپیکر پر اعلان کِیا جاتا ہے کہ”آئندہ ہر ماہ کے شروع میں ہر بزرگ شہری کو اُس کی ضرورت کے مطابق دودھ اور شہد کی بوتلیں اُس کے گھر پہنچا دی جائیں گی۔ حکومت ہر بزرگ شہری کے گھر تک دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے اور ہر قِسم کے پھل پہنچانے کا بھی“۔ بزرگ شہری ”جُگ جُگ جِیوے نواز شریف“ کے نعرے لگاتے ہیں۔ خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق بھنگڑا ڈالتے ہیں۔
مَیں نے اگلے منظر میں دیکھا کہ ”عدالتوں کے احاطے میں وُکلاءاور اُن کے منشی تو اپنے چیمبرز میں بیٹھے ہیں لیکن دُور دُور تک کوئی مُدّعی اور مُدّعا علیہ نہیں ہے۔ مَیں نے کئی عدالتوں میں جھانکا تو دیکھا کہ جج صاحبان اور اُن کا عملہ ایک ایک تسبیح ہاتھ میں لئے اُس پر کچھ نہ کچھ پڑھ رہا ہے۔ مَیں نے ایک عدالت کے دروازے پر لِکھا دیکھا کہ
” ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں“
عدالت سے باہر وردی میں ملبوس ایک سینئر پولیس آفیسر سے میری ملاقات ہُوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ”جنابِ وزیراعظم کی طرف سے غریبوں کے حق میں ” معاشی دھماکہ“ کئے جانے کے بعد تھانے ویران ہوگئے ہیں، مفلوک اُلحال لوگوں نے جرائم کرنا بند کردئیے ہیں، خوشحال طبقہ بھی راہِ راست پر آگیا ہے، اب مُلک میں کوئی کسی پر ظلم نہیں کرتا، جاگیر دار اور مزارع، کارخانہ دار اور مزدور بھائی بھائی بن گئے ہیں، ٹارگٹ کلنگ، بھتّہ خوری، اغواءبرائے تاوان اور قبضہ مافیا نے توبہ کرلی ہے۔ اُن میں سے زیادہ تر لوگ پانچ پانچ سال کا ملٹی پل ویزا لگوا کر امریکہ چلے گئے ہیں اور اُن میں سے کچھ
” میرے مولا بُلا لو، مدینے مجھے!“
کی دُعائیں کر رہے ہیں۔ اُس اعلیٰ پولیس آفیسر نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ”مَیں نے جناب انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ایک تجویز بھجوائی ہے کہ ”وفاقی اور صوبائی حکومتیں محکمہ پولیس کو ختم کردیں اور فارغ ہونے والے افسروں اور اہلکاروں کے لئے خلیجی ریاستوں میں ملازمتوںکا بندوبست کر دِیا جائے“۔ ایک اور منظر میں مَیں نے دیکھا کہ ”حکومت نے اسلام آباد کی لال مسجد کے ملازم ( باغی خطیب) عبداُلعزیزکو معاف کر کے اُن کی نوکری بحال کردی ہے۔ عبدالعزیز اور اُن کی اہلیہ (جامع حفصہ کی پرنسپل) امّ حسان کی طرف سے ” داعش“ سے اعلانِ لاتعلقی کر دِیا گیا ہے“۔ عبداُلعزیز نے قوم سے معافی مانگ لی ہے اور کہا ہے کہ ”مَیں آئندہ امیر اُلمومنین“ کا لقب اختیار کر کے مُلک میں شرعی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان نہیں کروں گا“۔ یہ بھی اعلان کِیا جا رہا تھا کہ ”جِن مذہبی جماعتوں کے لیڈروں نے کہا تھا کہ ”ہم لال مسجد کے خلاف آپریشن کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور اہلکاروں کو ”شہید“ تسلیم نہیں کرتے“ انہوں نے اپنے الفاظ واپس لے لئے ہیں“۔
مَیں نے ایک اور منظر دیکھا کہ مذہبی جماعتوں کے سبھی قابلِ ذکر قائدین وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کی قیادت میں جلوس نکال رہے ہیں اور (فی الحال اسلام آباد) ایک ہی وقت کے اذان اور نماز رائج کرنے پر اُن کا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور پورے مُلک میں ایک ہی دِن روزہ اور ایک ہی دِن عید کا نظام کرنے کے لئے اُن کی کوششوں کی بھی تعریف کر رہے ہیں۔ اِن سب قائدین نے یقین ظاہر کِیا ہے کہ ”چودھری محمد یوسف ان غریب مسلمانوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ بندوبست کردیں گے جو سال میں گیارہ ماہ فاقے اور ایک ماہ روزے رکھتے ہیں“۔
ایک اور منظر میں مَیں نے دیکھ اور سُنا کہ ”(سابقہ اور موجودہ) حکمران/ سیاستدان اپنی لوٹی ہُوئی قومی دولت بیرونی ملکوں سے واپس لے آئے ہیں اور انہوں نے قوم اور مُلک کی اعلیٰ عدلیہ سے معافی مانگ لی ہے“۔ پھر حکومت کی طرف سے اعلان ہُوا کہ ”اب ہم آئی ایم ایف عالمی بنک یا کسی دوسرے سود خور امریکی ادارے سے قرض نہیں لیں گے بلکہ انہیں دینے کی پوزیشن میں ہوں گے“۔
مَیں چاروں طرف خوش کُن اعلانات سُن رہا تھا لیکن مَیں تو طالبان، القاعدہ، داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کی معافی تلافی کی خبر سننے کے لئے بیتاب تھا۔ پھر ایک دھماکے کی آواز سنائی دی یہ دھماکہ میرے جاگنے پر ”معاشی دھماکہ“ کے بعد ہُوا تھا۔