کالاباغ ڈیم۔ حقیقت کیا، فسانہ کیا.... (قسط 1)

چیئرمین واپڈا ظفر محمود ایک اعلیٰ سرکاری منصب پر فائز ہونے کے علاوہ بلند پایہ قلمکار بھی ہیں‘ وہ پاکستان میں آبی وسائل کو صحیح انداز میں بروئے کار نہ لائے جانے اور آئندہ چند سالوں میں ممکنہ طور پر پانی کا شدید بحران پیدا ہونے کے حوالے سے فکرمندی کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس تناظر میں کالاباغ ڈیم کی اہمیت و افادیت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے کالاباغ ڈیم پر حکومتی موقف کے باوصف اپنی ذاتی رائے پر مبنی مضامین تحریر کئے ہیں جو نوائے وقت میں آج سے قسط وار شائع کئے جارہے ہیں۔ ان مضامین کا بنیادی مقصد کالاباغ ڈیم کیلئے چاروں صوبوں میں اتفاق رائے کی فضا ہموار کرنا ہے۔ (ادارہ)


دُنیا بھر میں آبی ذخائر اور آبپاشی کے منصوبوں کے بارے میں تنازعات کا جنم لیناکوئی نئی بات نہیں ،تاہم کالاباغ ڈیم منصوبے سے وابستہ اختلافِ رائے کے کچھ منفرد پہلو ہیں۔ یہ منصوبہ عملی طور پر ربع صدی سے دفن ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں بین الصوبائی نفاق کی زندہ مثال ہے۔ اس منصوبے پر جاری طویل بحث جذبات کو مشتعل کرتی رہتی ہے۔ اِس بحث کے دوران ایسے تند و تیز دلائل پیش کئے جاتے ہیں جو زیادہ تر نسلی اور صوبائی بنیاد پراستوار ہوتے ہیں۔ سندھ، خیبرپختونخوااور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے اس ترقیاتی منصوبے کے خلاف منظور کی جانے والی متفقہ قراردادوںنے تین چھوٹے صوبوں کو پنجاب کے مقابل صف آراءکردیا ہے اور اِس وجہ سے وفاق کا شیرازہ، تناﺅ کا شکار ہے ۔ وفاقی وحدت کے تناظر میںاِس منصوبے کا تذکرہ علامتاً ایک ایسے مسئلے کے اظہار کے طور پرکیا جاتا ہے، جس پر اتفاق رائے کا حصول ناممکن ہو۔ کالاباغ ڈیم سے متعلق دلائل کے ایسے گرداب میں جو علاقائی جذبات اور سیاسی صف بندی کی زہریلی موجوں میں گھرا ہوا ہے، واپڈا کے چیئرمین کا از خود کود جانا شاید آپ کو آبیل مجھے مار،جیسا قدم نظر آئے ۔اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس تعیناتی کے دوران ایسے حقائق میرے علم میں آئے جو ان مفروضوں سے مختلف تھے جو اس منصوبے کے بارے میں پھیلے ہوئے ہیں ۔کم و بیش ایک سال قبل میں نے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف صاحب سے اپنی اِس خواہش کا اظہار کیا کہ میں ذاتی حیثیت میں کالا باغ ڈیم منصوبے کے بارے میں مضامین تحریرکرنا چاہتا ہوں ۔ اُنہوں نے مجھے واضح الفاظ میں کہا کہ کالاباغ ڈیم سمیت پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بھی منصوبہ مشترکہ مفادات کونسل کی متفقّہ منظوری کے بغیر تعمیر نہیں کیا جائے گا ،تاہم انہیں میری جانب سے ذاتی حیثیت میں حقائق عوام کے سامنے رکھنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی۔ وہ لوگ جو پانی کے مسائل کے بارے میں دلچسپی رکھتے ہیں ، ان اختلافی آراءسے متاثر ہیںجن کا پروپیگنڈا اس سارے عرصے میں کیا جاتا رہا ہے۔ اس صورتِ حال کو واضح کرنے کیلئے مندرجہ ذیل مثال مناسب معلوم ہوتی ہے۔:ہمارے ملک کے ایک قابلِ احترام دانشور جناب ابرار قاضی کی انگریزی زباں میں لکھی تصنیف”کالاباغ ڈیم : سندھ کا مقدمہ“ کے مطالعہ کے دوران،مجھے یہ تحریر پڑھنے کا موقع ملا۔ ”سندھ جس بات کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے وہ کالاباغ ڈیم ہے۔کالاباغ ڈیم صوبہ پنجاب کی شمالی سرحد کے قریب واقع ہوگا۔ ڈیم کی بائیں جانب سے 15 ہزار کیوسک گنجائش کی نہر نکالے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔ نہر میں پانی کا بہاﺅ مغرب سے مشرق کی سمت ہوگا اور اسکے ذریعے ہر سال ڈیم سے 6 ملین ایکڑ فٹ پانی رسول بیراج سے بالائی جانب دریائے جہلم میں منتقل کیا جائیگا ۔“ میں نے انہیں حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے خط لکھنے کی جسارت کی۔ ان کے جواب سے معلوم ہوا کہ کالاباغ ڈیم منصوبے کی تیکنیکی تفصیلات کے بارے میں ابہام ہے ۔ایک ممکنہ سمجھوتے کو تلاش کرنے کی ایک اوروجہ گذشتہ 25 سال کے دوران اس منصوبے پر ہماری مسلسل بے عملی ہے۔ اِس بے عملی کیلئے ہم نے صوبوں کے مابین بظاہر عدم اتفاق کے پیچھے پناہ لی ہوئی ہے۔مگر بدقسمتی سے اختلافِ رائے کے حامل فریقین کے درمیان کسی سمجھوتے کی تلاش کیلئے نہ کوئی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے اور نہ ہی سیاسی سطح پراِس بارے میں کوئی کوشش نظر آتی ہے، جبکہ سیلاب کی تباہ کاریاں اور انڈس ڈیلٹا میں سمندرکے پانی کی پیش رفت سے پیدا ہونے والے مسائل جاری و ساری ہیں۔ 2012 ءمیں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی اس ضمن میں ہدایات جاری کیں۔ ان کا یہ قدم بھی میری اس کاوش کیلئے ایک حوصلہ افزا محرک ثابت ہوا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا”وفاقی حکومت کی جانب سے حقیقی اقدامات لازم ہیں تاکہ منصوبہ اختلافِ رائے کی خام توجیہات کی نظر نہ ہوجائے....“ یہ بات سب سے اہم ہے کہ تمام صوبے دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر پر متفق ہیں۔ ایک ہی دریا کے ایک مقام پر اختلاف اور دوسرے مقام پر ڈیم تعمیر کرنے پر اتفاق ۔آخر کیوں؟اس سے قبل کہ کچھ مزیدتحریر کیا جائے، مجھے اس بات کی وضاحت کرنے دیجئے کہ میں نے اس معاملے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کو شامل کرنے کا انتخاب کیوں کیا؟یہ روایتی دانش مندی کے خلاف ایک مشکل فیصلہ تھا۔ میں اب بھی اس بات کا قائل ہوں کہ کسی بھی متنازع معاملہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے خفیہ سفارت کاری کو ہی ترجیح دی جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کے بارے میں خط و کتابت کے پرانے ریکارڈ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ڈاکٹر محبوب الحق کا ایک خط نظر سے گذرا۔ یہ مکتوب انہوں نے 1986 ءمیں وفاقی وزیر منصوبہ بندی کی حیثیت سے وزیرپانی و بجلی کو تحریر کیا تھا۔اُن کے الفاظ تھے ”بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم منصوبہ اس وقت سیاسی تنازعات میں دھنس چکا ہے اور اس منصوبے کے بارے میں کوئی بھی عوامی مباحثہ نقصان دِہ ثابت ہوسکتا ہے....۔“ انہوں نے مزید تحریر کیا ”تاہم یہ بات نہایت اہم ہے کہ خاموشی کے ساتھ اس بارے میں تجزیہ کیا جائے....“۔ آخر میں انہوں نے لکھا ”لہٰذا میری تجویز ہے کہ ہم آپ کی سہولت کے مطابق اکٹھے ہوں اور کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں خاموشی سے اپنے آئندہ لائحہ عمل کو طے کریں“۔اس بات کو 30 برس گزر چکے ہیں، کالاباغ ڈیم منصوبہ سیاسی تنازعات میں مزید دھنس چکا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ اختلاف ِ رائے کی شدت نے حقائق کوافسانوں میں بدل دیا ہے ۔
محترم قارئین ! اب صورت حال کے بارے میں خاموشی سے لائحہ عمل طے کرنے کا وقت گزر چکاہے۔ رویّوں میں سختی آ چکی ہے۔ اس بات کی بہتر وضاحت میری اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک صاحبِ علم شخصیت کے ساتھ بات چیت سے ہو سکتی ہے۔ میرے اس سوال پر کہ کالاباغ ڈیم جس کی مخالفت کی جاتی ہے اور دیامر بھاشا ڈیم، جس کی تعمیر پرتمام صوبے متفق ہیں، ان دونوں منصوبوں میں کیا فرق ہے، وہ خاموش رہے ۔ میں نے ہمت نہ ہاری۔ ”سر! دونوں منصوبے دریائے سندھ پر ہیں، دونوں کے ذریعے پانی کاذخیرہ کیا جائے گا اور دونوں بجلی بھی پیدا کریں گے۔ خیبرپختونخوا کو کالاباغ ڈیم کی جائے وقوع کے حوالے سے مسئلہ ہے مگر سندھ کو جائے وقوع کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں “ انہوں نے یہ کہہ کر اس موضوع پر مزید بحث کے امکان کویکسر ختم کر دیا۔ ”یہ منصوبہ کالا ہے، کالا ہے ، کالا ہے اور یہ کبھی سفید نہیں ہوسکتا۔“اپنی زبان بند رکھنے کی اس تنبیہ کے بعد میں اس بات کا قائل ہوگیا کہ حکومت کی جانب سے یہ معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں لے جانے سے قبل تمام فریقین کے درمیان بات چیت شروع کرنے کیلئے واپڈا کی خاموش کوششوں سے برف نہیں پگھلے گی۔ صرف ذرائع ابلاغ ہی اس منصوبے کے بارے میں حقائق کو عوام الناس کے علم میں لانے کیلئے مو¿ثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن محترم قارئین ! میں اس بات کا قائل ہوں کہ متنازعہ معاملہ پر ہونے والی کسی بھی گفتگو میںاس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ وہ کسی فضول بحث میں تبدیل ہوجائے۔ایسا ہو سکتا ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ ذرائع ابلاغ کو جب صحیح حقائق کا علم ہوگا تو وہ حقیقت کو افسانے سے علیحدہ کرکے اور لوگوں کو وہ تصویر دکھانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو اب تک لاعلمی کی دھند میں چھپی ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن