بلوچستان کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بلوچستان کے علاقوں سے افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی) کے تربیت یافتہ دہشت گرد، ایجنٹ، منصوبہ ساز آپریٹرز گرفتار کرلئے گئے ہیں جو کچھ سالوں سے ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں ملوث تھے ان افغان خفیہ ایجنسی کے ’’کارندوں‘‘ میں عصمت اللہ، احمد اللہ نے بالترتیب 22افراد کوقتل اور چمن میں 7بم دھماکے کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ بھی اقرار کیا کہ ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے افغان خفیہ ایجنسی والے دھماکوں کیلئے رقم دیتے تھے دہشتگردی کیلئے افغان مہاجرین کیمپوں کو استعمال کیا جارہا ہے افغانستان کے جنرل مالک، جنرل مومن اور جنرل نعیم دہشت گردوں کو ’’کنٹرول‘‘ (منصوبہ بندی) کرتے تھے۔ہمیں پاک فوج کی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کا کہا گیا بم دھماکے کے 80ہزار روپے اور قتل کے ڈھائی لاکھ روپے ملتے تھے۔ ہمارے ساتھیوں میں حبیب، سلام، حمید،صدام اور حنان شامل ہیں ہم پشتون آباد میں افغان آفیسرز سے ملتے تھے اور سپین بولدک میں بھی این ڈی ایس دفتر میں افغان خفیہ افیسر ہمیں زیادہ عوامی رش میں دھماکوں کا کہتے تھے۔ بم دھماکوں میں محمد شفیع ، عبداللہ شاہ، نور احمد، احمد اللہ وغیرہ اصل مجرم ہیں ہم 10ہزار سے 30ہزار روپے تک پاکستانی شناختی کارڈ بنوالیتے تھے۔’’را‘‘اور این ڈی ایس کے پاکستان دشمن منصوبوں کو روکنا پرائم خفیہ اداروں کی ذمہ داری ہے قبل ازیں بھارتی ’’را‘‘ آفیسر کل بھوشن یادیو اور دوسرے اہم ایجنٹ بڑے خفیہ اداروں نے گرفتار کرکے تہلکہ مچا دیا۔ اب افغان خفیہ ادارے کے متعدد ایجنٹ نیٹ ورک پکڑنا بڑی کامیابی ہے۔یہ انتہائی الارمنک صورتحال ہے کہ افغان ایجنٹ 2005ء یا 2014ء سے پاکستان میں جعلی شناختی کارڈ پر پاکستانی شہری بن کر افغان خفیہ ایجنسی سے تربیت اوررقوم لیتے رہے اور 2014ء سے خون ریزی فتنہ فساد کررہے ہیں۔ اگر افغان شہری دس یا 20سال سے جعلی پاکستانی شناختی کارڈوں پر پاکستانی شہری اور پاسپورٹ ہولڈر بن چکے ہیں تو یہ ملکی سلامتی کیلئے انتہائی خطرناک ہے کیونکہ افغانستان یا بھارتی خفیہ ایجنسیاں ان لوگوں کو اور افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان کے ’’گندے انڈوں‘‘ (ایجنسیوں ، منصوبہ سازوں، سہولت کاروں) کے گروپ بنوا کر حملے کروا رہے ہیں اس لئے چوہدری نثار علی خان کا قومی شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کا اقدام ملکی سلامتی کیلئے اتنہائی ضروری ہے البتہ اسے مرحلہ وار کرنے کی لازمی حکمت عملی بنائی جائے کروڑوں بزرگوں، جوانوں، خواتین کو گرمی ، سردی، آندھی، بارش میں لائنوں اور چھ گھنٹے ’’ذلیل‘‘ نہیں کیا جاسکتا جیسا گذشتہ سال اسلحہ لائسنس والوں کی تصدیق کیلئے اسلحہ برانچوں اور نادرا مراکز پر ہوا۔ چوہدری نثار علی خان ناقص منصوبہ بندی سے 100فیصد میں سے 40فیصد اسلحہ لائسنسوں کی تصدیق ایک سال میں کر پائے اور کم افرادی قوت اور مشینری کے باعث شناختی کارڑوں (کروڑوں) میں بھی بے گناہ، شریف شہریوں کی رسوائی ہونا لازم ہے یہ عوام کو خوار کرنے کی پالیسی قابل مذمت ہے۔ ایسا نظام بنایا جائے کہ اسلحہ لائسنسوں کی طرح شناختی کارڈز کی تصدیق اچھے اور بغیر زیادہ تکلیف کے ممکن ہو۔حکومت پاکستان کو افغانستان کی حکومت، جرنیلوں، خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ حکام سے بلوچستان میں این ڈی ایس کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا معاملہ سختی سے اٹھانا چاہیے ایک طرف افغان سفیر جنرل راحیل شریف سے مل کر افغان بارڈر کے اپنے مسائل حل کروا لیتے ہیں تو دوسری طرف آرمی پبلک سکول میں 150جانوں کے سانحے کے بعد سے افغان اعلیٰ ترین جرنیلوں سے جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان کا خفیہ اطلاعات کا معاہدہ اور آپریشنوں (افغانستان کے اندر چھپے بعض کمانڈرز) ، داعش، ازبک، تاجک، عرب جنگجوئوں کیخلاف کارروائیوں پر ’’تعاون‘‘ کا میکنزم ہے دوسری طرف ’’را‘‘ کے پانچ یا چھ بڑے مراکز اور افغان خفیہ ایجنسی کے پاکستان کیخلاف مشترکہ دہشت گردانہ آپریشن مسلسل جاری ہیں۔طالبان امیر ملا اختر منصور پر ڈرون حملے میں بھی ان ایجنسیوں کا سی آئی اے سے تعان ہوا ہوگا کیونکہ ایران کے اندر ’’را‘‘ کا مضبوط نیٹ ورک ہے اور مودی روحانی سٹریٹیجک پارٹنر شپ برائے چاہ بہار بندرگاہ مشترکہ مفاد ہے۔ ملا اختر منصور پر امریکی ڈرون حملے کی کامیابی سی آئی اے کے ایران اور بلوچستان میں ’’کارگر‘‘ اورہونے کا زندہ ثبوت ہے۔ ہمارے خفیہ ادارے بھی عجیب صورتحال سے دو چار ہیں ایک دو بڑی کامیابیاں پھر ہزیمت، رسوائی کے واقعات اور سوالات؟ بلوچستان افغان سرحد کو ہر صورت ’’بند‘‘ کرنے کے اقدامات نواز شریف یا آرمی چیف راحیل شریف اٹھائیں اگر طویل سرحد کو دہشتگردوں کے داخلے سے روکنے کیلئے اربوں روپے بھی درکار ہیں تو حکمران یہ فراہم کریں ہم مستقبل میں ’’سی پیک‘‘ کے 46ارب ڈالرز کے منصوبے کی حفاظت موجودہ ’’محکموں‘‘ (سکیورٹی و خفیہ اداروں) کی فورس، آلات، فنڈز سے ہرگز ہرگز نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی تقدیر بدلنے والے منصوبے کیلئے موٹرویز اور پلوں، کوئے کے بجلی گھروں دیگر اربوں کے منصوبوں سے زیادہ ضروری افغان بارڈر اور ’’را‘‘ این ڈی ایس، سی آئی اے یا دیگر ہمسایہ ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔