’’پاکستان اورمیاں نوازشریف کیلئے دعا‘‘

May 31, 2016

منیر احمد خان

پاکستان کی سیاست لندن میں ہونے اور لندن پلان کی باتیں تو ہوتی تھیں اب پاکستان کی حکومت بھی لندن سے چلانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی اوپن ہارٹ سرجری آج ہوگی۔ آپریشن سے قبل اور بعد میں حکومتی معاملات ویڈیولنک کے ذریعے لندن بیٹھ کر چلائے جائینگے الطاف حسین پچھلے25 سال سے ویڈیولنک اور ٹیلیفون کے ذریعے ایم کیوایم کی قیادت کر رہے ہیں اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب بھی کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے ذریعے انکی بولتی بند ہے اور عوام ایک ’’شغل‘‘سے محروم ہیں۔ انکی زبان پھسلنے اور قومی اداروں پر بلاجواز تنقید نے ان کو یہ دن دیکھنا پڑا کہ اخبارات اورٹی وی پر ان کی تقریر یا بیان نہیں آ سکتا۔ پہلے ہی میانہ روی اختیارکی ہوتی تو یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔ ویڈیولنک کے ذریعے توپنجاب حکومت بھی چلائی جا رہی ہے۔ میاں شہبازشریف کافی ایکٹیو مشہور ہیں لیکن وہ بھی اجلاسوں کی صدارت ویڈیولنک کے ذریعے کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سول سیکریٹریٹ میں اجلاسوں کی صدارت بھی ماڈل ٹائون بیٹھ کر ہو رہی ہوتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور حکومتی امورگھر بیٹھ کر چلائے جا رہے ہیں لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ عوامی مسائل کی آگاہی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک گائوں گائوں اور شہر شہر خود نہ جایا جائے اور نہ ہی اچھی حکومت کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم کے آپریشن اور لندن میں بیٹھ کرحکومتی امور چلانے کی بات ہو رہی تھی تواچھی خبر یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومتی لوگوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے لوگ بھی صحتیابی کی دعا کر رہے ہیں۔
یارلوگ وزیراعظم کی بیماری کوآصف زرداری کی میموگیٹ سکینڈل کے دوران بیمار ہونے سے جوڑ رہے ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ پانامہ لیکس کے معاملہ کو التوا میں رکھنے کی سازش ہو رہی ہے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔کوئی بھی بیمار ہو تواس کو سنجیدہ لینا چاہئے اور اسکی صحتیابی کی دعا کرنی چاہئے۔دوسرا یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ریاستی معاملات کا کسی کے بیمار ہونے پر یا صحت یاب ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت کے جانے یانہ جانے کے معاملات بالکل الگ ہیں بھارت ، ایران ، افغانستان اور امریکہ کیساتھ تعلقات کیسے ہونے چاہئیں اور حکومت ان ممالک کیساتھ کیسے ڈیل کر رہی ہے اور ریاستی اداروں کی کیا سوچ ہے اس پر بیمار ہونے سے اختلاف تو ختم نہیں ہو سکتا۔ اچھی حکومت ہونی چاہئے، کرپشن ختم ہونی چاہئے اس پرکون کمپرو مائزکر سکتا ہے؟ اسی لئے تو چیف جسٹس پاکستان نے لاڑکانہ میں کہا کہ ہم اپنا قبلہ درست کر لیں تو اپنے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیںگے۔ ہماری آنیوالی نسلیں اقوام عالم میں سر اٹھا کر چل سکیں گی۔ ہمارے ملک میں نظام حکومت 1973ء کے آئین کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ ہمارے اندر خامیوں میں جب تک قابو نہیں پائیں گے مسائل اس طرح چلتے رہیں گے۔ ہمارے بعد آزاد ہونیوالے ملک دنیا میں صف اول کے ملکوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ ہرشخص کرپشن اقربا پروری اور بری گورننس کی بات کر رہا ہے۔ فلاحی مملکت کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اصل مسائل یہ ہیں جنکی چیف جسٹس پاکستان نشاندہی کر رہے ہیں۔ نظام عدل ٹھیک کرنے کی بات ہمارے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے کوئی معاشرہ اس وقت تک ترقی دے رہا ہے۔ غریب ملک بھی انصاف کیلئے شور مچا رہے ہیں۔ امریکہ نے ڈرون حملہ کرکے ملامنصورکو تو مار دیا لیکن پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا سوال اٹھا دیا ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میںبھی کہا تھا کہ خودمختاری کے نام پرایف16 طیارے نہیں لئے جا سکتے۔اس طرح دہشت گردی کی جنگ کے نام پر پاکستان کی آزادی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔گزشتہ روز امریکہ کی خاتون اول پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کے گھر چلی گئیں اور انکے بیٹے کی گریجویشن دعوت میں شریک ہوئیں گویہ ایک پرائیویٹ تقریب تھی لیکن خارجہ امور میں اس طرح کے معاملات ذاتی نہیں ہوتے اس میں بھی ملکوں کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ پاکستانی سفیرکو ضرور شاباش دینی چاہئے کہ انکے اچھے تعلقات سے پاکستان کو فائدہ ہوگا اور اب مجھے یہ امید ہوئی ہے کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی درخواست پراتفاق رائے ہو جائیگا اورامریکہ اپنے اثر و رسوخ سے معاملات کو پاکستان کے حق میں کریگا کیونکہ پاکستان کی اس درخواست کا مقصد انٹرنیشنل برادری کے ساتھ اسلحہ کی دوڑ اور تباہی مچانے والے ہتھیارکو روکنا ہے ۔پاکستان کو ایسے سفیروں کی ضرورت ہے جو ہر وقت اپنے ملک کے مفادکی کوشش کریں۔ جلیل عباس جیلانی بابائے جمہوریت مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کے قریبی عزیز ہیں وہ انکی زندگی میں بھی حکومتی دبائوکی پروا کئے بغیرمرحوم سے ملنے آیاکرتے تھے ۔ایسے لوگوں کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ بات وزیراعظم نوازشریف کی بیماری سے شروع ہوئی اور واشنگٹن تک پہنچ گئی کیونکہ اصل بات یہ ہے کیونکہ پاکستان کے معاملات"AAA" کے ذریعے ہی طے ہوتے ہیں ان تین اے میں ایک امریکہ بھی شامل ہے اس لئے اس کا ذکرکئے بغیر پاکستان کی سیاست اورحکومت مکمل نہیں ہو سکتی ۔ لوگ تلاش کر رہے ہیں کہ پانامہ لیکس کے معاملات میں تینوں اے کیا چاہتے ہیں۔ امریکہ اپنے کارڈز چھپا کر رکھے ہوئے ہے جبکہ ایک"A" نے کبھی بھی اپنے کارڈ شو نہیں کئے۔ یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ حکومتی تبدیلی یا موجودہ سیٹ اپ کی جگہ دوسرا سیٹ اپ لانے کی باتوں کا پانامہ لیکس سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکی سفیرکے دورہ GHQ میں جنرل راحیل شریف نے پاکستانی موقف کو واضح کر دیا ہے کہ ہم کسی طرح بھی اپنی آزادی اورخودمختاری پرحرف نہیں آنے دینگے۔ امریکی سفیرکے اس وزٹ میں یہ بات بھی مزیدواضح ہوگئی ہے کہ ملکی مفادکس کو عزیز ہے اورکون کھل کر اورآنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔ ہمیں وزیراعظم نوازشریف کی صحت یابی کیلئے دعا کرنی چاہئے اوراسکے ساتھ ساتھ ملک کے مستقبل کیلئے بھی اللہ سے مدد مانگنی چاہئے۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ وقت پر فیصلے کرنے کی اہمیت ہوتی ہے۔ وقت گزر جائے یا وہ مُکا جو لڑائی کے بعد یاد آئے وہ اپنے منہ پر مار لینا چاہئے۔

مزیدخبریں