اسلام آباد (این این آئی) سینٹ کی کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل بارے فنکشنل کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر محمد عثما ن خان کاکٹر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے پچھلے اجلاس میں دی گئی سفارشات اور وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی کی اور اسکے ذیلی اداروں کی فاٹا اور کم ترقی یافتہ اضلاع میں قائم سینٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کے لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں اور بیورو کریسی نے سنجید گی کے ساتھ کام نہیںکیا۔ اگرچہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں زیادہ تر دارو مدار زراعت پر ہے تاہم یہاں رہنے والے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکٹر نے تجویز دی کہ 80 فیصد منصوبے کم ترقی یافتہ علاقوں میں ہونے چاہئیں۔ کمیٹی نے ٹھوس قابل عمل منصوبوں کے سلسلے میں سفارشات بھی طلب کر لیں۔ کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں زرعی شعبے کی ترقی اور لائیوسٹاک کی پیدا وار میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کئے جائیں۔ دور دراز علاقوں میں جدید ریسرچ سینٹرز کے قیام کیلئے اقدامات کئے جائیں جبکہ بلوچستان، فاٹا اور دیگر دور افتادہ علاقوں میں جہاں زیتون کی کاشت ممکن ہے کیلئے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں۔ چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے جائیں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی فراہم کرکے فصلوں کو تباہی سے بچایا جائے۔ وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکورٹی سکندر حیات بوسن نے کہا کہ زراعت کے شعبے کو مسائل درپیش ہیں کپاس کی پچھلے سال کی گانٹھیں بھی پڑی ہیں مگر اپٹما خریدنے کو تیار نہیں اور بیرون ملک سے کپاس خریدی جا رہی ہے جس سے مقامی کاشتکار کو کافی پریشانی کا سامنا ہے جبکہ ملک میں گندم کی قیمت 1300 روپے فی من ہے۔ وزارت کے حکام نے بتایا کہ زراعت کی بحالی کیلئے منصوبہ تیار کیا ہے جس پر 30 ارب روپے لاگت آئیگی اور اس سلسلے میں منظوری کیلئے وزیراعظم کو سمری بجھو ا دی گئی ہے۔
فنکشنل کمیٹی