کتابِ حکمت کی روشنی میں صوفی بزرگ حضرت ابو اُنّیس محمد برکت لدھیانوی جن کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف اس خاکسار کو بھی حاصل ہے اُنکے مقالاتِ حکمت سے ایک اقتباس ’’تعمیر تو ایک مکان کی بھی مشکل ہے، انسان کی تعمیر کے تو کیا کہنے؟ اپنے اپ تو نہ مکان بن سکتا ہے نہ انسان۔ ہر تعمیر مکان کی ہو یا انسان کی، معمار کی محتاج ہے‘‘۔ اس ایک مکالمے میں بیان کئے گئے فلسفے کی گہرائی میں جائیں تو پھر قوموں کی تعمیر میں اسکے لیڈروں کی اہمیت کا فلسفہ عیاں ہوتا ہے اور سمجھ آتی ہے کہ اس سلسلے میں انکا کردار کس اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور کیسے بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں کس اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں اسکی روشن مثال ہماری کائنات ہماری دنیا ہماری اساس کا چمکتا ستارہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی صورت میں موجود ہے۔ ذرا غور کریں راہنمائی کے سفر کیلئے نکلتے ہیں تو لوگوں سے پہلا سوال اپنی صداقت اور امانت کی گواہی لیکر کرتے ہیں اپنے تو اپنے دشمن بھی انکے صادق اور امین ہونے کی قسم کھاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عرصہ 23 سال کی مختصر مدت میں ایک ایسی قوم کی تشکیل کر دیتے ہیں جو قصر و کسریٰ کے دَر و بام ہلا کر رکھ دیتی ہے لیکن آج وقت کا جبر اور ہماری بدنصیبی دیکھیے ملکی قیادت کے جتنے بھی دعویدار ہیں کیا ان میں ایک بھی صداقت اور امانت کی اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ مخالفت میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ تو ہوتی ہی ہے لیکن یہاں تو زمینی حقائق ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ایک نہیں دو جج صاحبان کو اپنی اس رائے کو اخذ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ انکی رائے میں ملک کا وزیراعظم اپنے قول اور فعل کے تضاد کی روشنی میں صادق اور امین نہیں رہا لیکن ہماری غفلت اور جہالت کا یہ عالم ہے کہ ہم پھر بھی قیادت کے ان دعویداروں سے ایک عظیم قوم کی تعمیر کی اْمید لگائے بیٹھے ہیں۔ بات صرف اپنے اس ملک پاکستان تک ہی محدود نہیں رہی شخصی تحفظ اور ذاتی مفادات کی جنگ ہماری مسلم اُمہ کو مذہبی عقیدے کی بنیاد پر جس تفرقہ بازی میں تقسیم کرنے جا رہی ہے حالیہ ہفتے اس سلسلے میں حقیقت اور روایات سے بغاوت کرتے جو مناظر ان گنہگار آنکھوں سے گزرے ہیں انکی تفصیلات میں جانے کی کوشش ایک سعی لا حاصل ہو گی لیکن مسلم قیادت کے علمبرداروں نے جس طرح مسلمانوں کے اعلانیہ دشمن ایک احمق ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنی روایات سے روگردانی کرتے ہوئے جس تپاک سے استقبال کیا ہے اس پر تو اپنے مسلمان ہونے پر بھی شک گزرنے لگا ہے یقین جانیئے اتنے تردد تو کوئی اپنے داماد کیلئے نہیں کرتا جتنے اس غیر مہذب شخص کیلئے برتے گئے۔ ان صاحب اختیار لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاید سامراجی قوتوں کا یہ علمبردار انکی شخصی حکومتوں کو تحفظ دے گا لیکن اس خاکسار کی تیسری آنکھ یہ دیکھ رہی ہے کہ ماضی میں صلیبی جنگوں سے خوف زدہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست خوردہ تہذیبوں کے درمیان امکانی تصادم کو بڑی چالاکی اور خوبصورتی کے ساتھ فرقوں کی بنیاد پر مسلم اُمہ کے باہمی جھگڑوں کی طرف موڑ رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو بڑی معصومیت کے ساتھ انہی کا ترتیب شدہ کھیل انہی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ قوموں کی تعمیر کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کریں جنہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھا اور ان میں سدھار لیکر آئے وہ آج ترقی یافتہ اور زندہ قومیں کہلا رہی ہیں۔ برطانیہ کی تاریخ ہی دیکھ لیں ایک زمانہ تھا کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کی بنیاد پر پوری عیسائی کمیونٹی اس طرح منقسم تھی کہ ہر لمحے ایک جنگ کا سماں بندھا رہتا تھا لیکن انھوں نے تاریخ سے سبق سیکھا۔ آج پورے برطانیہ کی سڑکوں پر گھوم لیں کسی سے اپ اسکے کیتھولک یا پروٹسٹنٹ عقیدے کے بارے میں پوچھیں وہ آپ کو اس حیرت سے دیکھے گا کہ آپ کو اپنے بیوقوف ہو نے کا گماں لگے گا۔ انھوں نے تاریخ سے سبق سیکھا اور آج دنیا کی صف اوّل کی قوموں میں شمار ہونے لگے۔ لیکن اسے ہماری کم علمی کہیے یا کم عقلی یا پھر جہالت کہ لبنان، عراق، لیبیا اور اب شام پچھلے بیس تیس سالوں میں جس تباہی سے دوچار ہوئے ہیں اسکے اصل مؤجب اور موجد کو ہم نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ایران عراق کو دس سال کس نے لڑایا۔ عراق کو کویت پر حملے کیلئے کس نے اُکسایا اور پھر عراق کی حمایت سے کس نے ہاتھ کھینچا اور پھر عراق کی طرف سے so called خطرے کا ہوا کھڑا کر کے غیر اعلانیہ طور پر کویت کے ہمسایہ ممالک میں اپنی فوجیں کس نے بھیجیں۔ لیبیا کو تباہ کرنے کیلئے قذافی کے خلاف طالبان کو کس نے صف آرا کیا۔ تاریخ کا مطالعہ اگر حقائق سمجھنے میں مدد کر دے تو مشرق وسطیٰ اور خلیج میں جو کھیل ہونے جا رہا ہے وہ بڑی آسانی سے سمجھ آ سکتا ہے لیکن جو چیز اس خاکسار کو سب سے زیادہ پریشان کر رہی ہے، وہ ہے یہ زمینی حقیقت کہ میرے پاکستان کا یہ معاشرہ تو پہلے ہی کافی فرقوں میں بٹا ہوا ہے اگر کوئی چنگاری ادھر بھڑک اٹھی تو کیا ہم عراق اور شام جیسے انجام سے بچ سکیں گے۔ تاریخی حقائق اس امر کے گواہ ہیں کہ جب سردار داؤد کی سربراہی میں افغانستان پاکستان کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھا تو یہ سعودی عرب ایران اور متحدہ عرب امارات ہی تھے جنھوں نے ملکر سردار داؤد کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل سے روکا اور ایک آج کا وقت ہے کہ یہ ممالک اپنی اپنی خواہشات اور مفادات کی اسیری میں میرے پاکستان میں جو گُل کھلا رہے ہیں، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ باتیں آپکے اور میرے سوچنے سے ہمیں اس تباہی سے بچا سکتی ہیں جو بظاہر نظر آ رہی ہے۔ بات پھر گھوم کر وہیں پہنچتی ہے بقول پیرِ حق صوفی برکت صاحب ’’تعمیر تو ایک مکان کی بھی مشکل ہے انسان کی تعمیر کے تو کیا کہنے؟ اپنے اپ تو نہ مکان بن سکتا ہے نہ انسان۔ ہر تعمیر مکان کی ہو یا انسان کی، معمار کی محتاج ہے‘‘ اب یہ منحصر ہے ان معماروں پر جو ہماری تقدیروں کے کاتب بنے بیٹھے ہیں کہ وہ تاریخ کی روشنی میں ہوش کے ناخن لیں اور ذاتی خواہشات کے گرداب سے باہر نکل کر قوم کے متعلق سوچیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی اصلاح کے آثار دکھائی نہ دیں تو پھر کیا کیا جائے۔ جواب بڑا سادہ ہے تبدیلی۔ اگلا سوال وہ کیسے تو اسکا بڑا آسان حل ہے۔ الیکشن بہت قریب ہے اپنے ووٹ کے ذریعے کسی بھی لالچ مصلحت یا ذاتی خواہش سے بالاتر ہو کر اصل معماروں کو ڈھونڈیئے، شائد آنے والی تباہی سے بچ جائیں۔
مشتری ہوشیار باش
May 31, 2017