قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سے سید خورشید شاہ براہ راست ٹیلی کاسٹ نہ کرنے کے تنازعہ نے شدت اختیار کر لی ہے حکومت بھی ڈٹ گئی ہے اور اس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے دبائو میں آکر اپوزیشن لیڈر کی سرکاری ٹیلی ویژن پر تقریر ٹیلی کاسٹ نہیں کرائے گی دوسری طرف اپوزیشن نے بھی حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے کبھی کورم کی نشاندہی کر کے اجلاس ملتوی کرانے کی کوشش کر رہی ہے کبھی واک آئوٹ کر کے کورم توڑ رہی ہے لیکن سر دست حکومت کورم کو پورا رکھ کر اپوزیشن کے تمام حربے ناکام بنا رہی ہے اب تو اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ لگانے کا ’’کھڑاک ‘‘ رچانے کا فیصلہ کر لیا اب دیکھنا یہ موسم گرما کی شدت میں اپوزیشن کتنے دن پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ’’ڈرامہ ‘‘ لگاتی ہے منگل کو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ جو سپیکر سردار ایاز صادق سے دوستی کے گیت گاتے تھے نے بھی کہہ دیا ہے ’’ حکومت نے خود سپیکر کی غیرجانبدار حیثیت کو متنازعہ بنایا ہے۔ میری تقریر لائیو نشر نہ کرنے کا فیصلہ وزیراعظم ہاؤس کے گریڈ 21 کے افسر کا ہے ‘‘ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ میں نے حکومت کو اپوزیشن کی بات پہنچا دی ہے۔ بہتر ہو گا اپوزیشن لیڈر بجٹ پر بحث شروع کریں‘‘۔ رانا تنویر حسین کی تقریر کے دوران تحریک انصاف کے ارکان نے ’’گو نواز گو‘‘ گلی گلی میں شور ہے نوازشریف چور ہے کے نعرے لگا ئے شاید تحریک انصاف کے ارکان کا یہی طرز عمل اپوزیشن لیڈر کی تقریر کی ’’لائیو کوریج ‘‘ میں رکاوٹ بن گیا ہے حکومت تو سید خورشید شاہ پر مہر بان ہے لیکن بجٹ اجلاس کے روز اپوزیشن کے طرز عمل کی وجہ سے حکومت نے اپوزیشن کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کا موقف پوری دنیا نے دیکھا۔ اپوزیشن کا بھی حق بنتا ہے وہ زمانہ گزر گیا یکطرفہ سٹوری سامنے لائیں گے اگر ہماری زبانیں اور منہ بند کریں گے تو یہ نہیں ہو گا۔ حکومت نے آپ کے لئے درست راستہ نہیں چنا سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ’’ شاہ صاحب میں روزے کے ساتھ کہہ رہا ہوں مجھے کوئی پرچی نہیں ملی‘‘۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ پرچی نہیں آئی ہو گی لیکن آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہو گئے، چلو مان لیتے ہیں کہ آپ کو ’’اکھیوں کے جھروکے‘‘ سے سمجھایا گیا۔جناب سپیکر آپ نے پہلی روایت توڑی ہے اور حکومت سے بحث شروع کرا دی۔ اس بجٹ کو کوئی نہیں مانے گا۔ جب تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے استعفے دیئے میں نے آپ کو استعفے منظور کرنے سے روکا اگر منظور کر لیتے تو آج حالات یہ نہ ہوتے سید خورشید شاہ حکومت پر اپنی ’’مہربانیوں ‘‘ کا ذکر کرتے رہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ میری غلطی ہے کہ کل میں نے بڑی بڑی کتابیں یہاں رکھ لیں۔ آپ نے سمجھا کہ پتہ نہیں کیا بولے گا۔ آپ ڈر گئے۔2014ء میں خورشید شاہ اٹھتا تھا تو اس کے ہاتھ بھی چومے جاتے تھے۔ ’’گٹے گوڈے‘‘ بھی چومے جاتے تھے۔ ’’مجھے یاد ہے تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن لیڈر کی تقریر لائیو نشر کرنے کا کہا تو 10 منٹ میں لائیو نشر ہو گئی۔ آپ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن آپ کی مجبوری ہے۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ریکارڈ نکلوایا ہے سوائے 2015ء کے کبھی بھی اپوزیشن لیڈر کی تقریر لائیو نشر نہیں کی گئی۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا کہ سید خورشید شاہ نے ہمیشہ جمہوریت کی بالادستی کی بات کی ہے دھرنے کے دوران بھی ان کا کردار تاریخی تھا لیکن کچھ عرصے سے سمجھ نہیں آ رہی۔ ان کی یہ سوچ تبدیل کیوں ہو گئی ہے۔ کبھی روایت نہیں رہی ایک بار کے علاوہ کبھی اپوزیشن لیڈر کی تقریر ان کی اپنی حکومت میں بھی کبھی نہیں ہوئی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کہاوت ہے کہ نادان دوست دانا دشمن سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے حکومت کا رویہ نادان دوست جیسا ہے۔آپ نے کہا کہ شاہ محمود آپ پھسل گئے ہیں کیا یہ عمر ہے ان کے پھسلنے کی ہے پیپلز پارٹی کے رکن ظفر لغاری نے کورم کی نشاندہی کر دی جس پر ڈپٹی سپیکر نے گنتی کرائی تو کورم پورا نکلا اور ایک بار پھر گزشتہ روز کی طرح پیپلز پارٹی کو کورم کی نشاندہی پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔بعدازاں پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ نے دوبارہ کورم کی نشاندہی کی کورم پھر بھی پورا نکلا۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو مسلسل دوسرے روز بھی خفت و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑاوفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے ظہر کی نماز کے وقت کورم کی نشاندہی کر نا افسوسناک ہے،جب ارکان نماز پڑھنے جاتے ہیں اپوزیشن اس وقت کورم کی نشاندی کرتی ہیں،جس سے ارکان آدھی نماز چھوڑ کر ایوان میں واپس آتے ہیں،اپوزیشن رمضان کا ہی احترام کرلے اور ایوان کو چلنے دے اس موقع پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد کو ہدایت کی کہ آپ ایوان میں ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری رکھیں اور وقفے وقفے سے ارکان نماز پڑھنے جائیں۔
سپیکر نے بجٹ پر حکومتی بنچوں سے بحث کا آغاز کرا دی ہے جس کے رد عمل میں اپوزیشن نے اپنی ’’پارلیمنٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے اس طرح حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ اپوزیشن وہ روایت ڈالے جو کل برداشت کرسکے ہم اپنے لیڈر کے خلاف بات نہیں سنیں گے۔ مجھے دو چیزیں نظر آتی ہیں حکومت نے بہترین بجٹ پیش کیا ہے اپوزیشن لیڈر کو اس میں کچھ نظر نہیں آرہا ہے اور نہ وہ تیاری کرسکے ہیں قومی اسمبلی میں حکومتی ارکان نے اپوزیشن پر شدید تنقید کرتے ہوئے وفاقی بجٹ کو متوازن قرار دیدیا ہے ۔مسلم لیگ (ن)کے ارکان نے کہا ہے کہ حکومت نے موجودہ حالات کے تناظرمیں بہترین بجٹ پیش کیا، اپوزیشن کو بجٹ میں تنقید کیلئے کچھ نظر نہیں آرہا اور نہ ہی اپوزیشن بجٹ پر بحث کی تیاری کر سکی، سینیٹ میں سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اسلامی ممالک کی افواج کے اتحاد سے متعلق توجہ مبذول کرانے کے نوٹس پر وزارت کی جانب سے جواب نہ آنے پر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے ۔چیئرمین سینٹ نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیر کو آج (بدھ) سینیٹ کے اجلاس میں طلب کرلیا ہے اور اس حوالے سے سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری خارجہ کو نوٹسز جاری کردیے ہیں انہوں نے سخت ریمارکس دیئے ہیں کہ ’’پارلیمنٹ کو بند کیوں نہ کردیں‘ دونوں وزارتیں متذکرہ معلومات کی فراہممی سے معذرت کررہی ہیں۔ نوٹس پیش ہونے کے موقع پر ایوان بالا میں موجود واحد وزیر ریاض حسین پیرزادہ بھی اٹھ کر چلے گئے۔ محرک نے کہا کہ آج بھی وزیر دفاع ایوان سے غیر حاضر ہیں۔
پارلیمنٹ کی ڈائری
خورشید شاہ کی تقریر، کوریج نہ ہونے پر متحدہ اپوزیشن کا ’’عوامی پار لیمنٹ‘‘ لگانے کا ’’ڈرامہ‘‘
May 31, 2017