وزیر موصوف، بکریاں اور امریکہ

امریکی صدر ٹرمپ کے دورئہ سعودی عرب کی ٹی وی کوریج دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے ایک پروفیسر صاحب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آگیا۔ ہمارے ان پروفیسر صاحب کی پوسٹنگ اپنے گھر سے بہت دور تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا تبادلہ گھر کے قریبی کالج میں ہوجائے۔ ایک دن شہر میں ان کے گھر کے قریب واقع ایک کالج میں جگہ خالی ہوئی تو ہمارے دوست نے اس کے لئے تگ و دو شروع کردی۔ معلوم یہ ہوا کہ وہ پوسٹ ایک انار تھی، جس کے حصول کے لئے سو بیمار کوشش کررہے تھے۔ ہمارے دوست نے کسی کے مشورے سے ایک وزیر صاحب تک رسائی حاصل کی۔ وزیر صاحب نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ خود سیکرٹریٹ قدم رنجہ فرما کر سیکرٹری ایجوکیشن سے بات کریں گے اور ان کا دیرینہ مسئلہ حل کرائیں گے۔
ہمارے دوست سورج طلوع ہوتے ہی وزیر صاحب کے ڈیرہ نما آفس میںچلے جاتے۔ وزیر صاحب فرماتے، بے فکر رہیں، آپ کا مسئلہ بہت جلد حل ہوجائے گا لیکن وزیر موصوف مسئلے کے حل کے لئے نہ تو کسی کو فون کرتے اور نہ حسب وعدہ سیکرٹریٹ کا رخ کرتے۔ ہمارے دوست کے لئے یہ ایام بہت پریشانی میں گزر رہے تھے۔ آخر ایک دن ہمارے دوست امید اور مایوسی کے درمیان معلق وزیر صاحب کے دفتر پہنچے جہاں وزیر صاحب اِدھر اُدھر کی باتوں میں منہمک تھے۔ انہوں نے پروفیسر صاحب کو دیکھتے ہی کہا: ’’چلو جی چلتے ہیں، یہاں بیٹھے کیا باتیں کرتے رہیں، ہمارے دوست بہت خوش ہوئے، انہیں محسوس ہوا کہ مسئلہ حل ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ وزیر صاحب نے انہیں اپنی شاندار گاڑی میں بٹھایا اور چل پڑے… لیکن یہ کیا کہ گاڑی سیکرٹریٹ کی بجائے بکرمنڈی پہنچ گئی۔ وزیر موصوف خوشی خوشی بکر منڈی اترے اور بکریاں ڈھونڈنے اور من پسند بکریاں منتخب کرنے میں محو ہوگئے۔ ہمارے دوست اپنی پریشان حالی کے باوجود گرتے پڑتے ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ وزیر صاحب یہ جملہ بار بار دہرا رہے تھے کہ انہیں بکریوں سے بہت پیار ہے اور انہیں بکریاں بہت پسند ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف نسل کی بکریوں کے فضائل بھی بیان فرما رہے تھے۔ پہلے تو انہوں نے ایک منحنی سی بکری اٹھائی اور کہا کہ پروفیسر صاحب! اس کے ظاہر پر نہ جائیں، اس کے باطن میں فائدے کے بہت سے سامان چُھپے ہیں پھر وزیر صاحب نے ایک ایسی بکری کا انتخاب کیا جس کی آنکھیں غزالی تھیں۔ انہوں نے بکری کی آنکھوں میں جھانکا اور جواباً بکری نے بھی التفات سے خیرسگالی کا اظہار کیا۔ انہوں نے چار پانچ گھنٹے بکریوں کے درمیان گزارے۔ پروفیسر صاحب کبھی وزیر اور کبھی بکریوں کی طرف دیکھتے تھے۔ انہیں یہ مشغلہ اس لئے غیر دلچسپ لگ رہا تھا کہ ان کی تمام تر توجہ اپنے تبادلے پر مرکوز تھی۔ وزیر صاحب نے چار پانچ بکریاں خریدیں اور پروفیسر صاحب سے کہا: اب آپ گھر جایئے، آپ کا مسئلہ بھی کوئی مسئلہ ہے، وہ حل ہوجائے گا۔
امریکہ کے لئے عرب ممالک ایک بکر منڈی ہے۔ سارے عالم اسلام کی حالت ہمارے پروفیسر صاحب کی مانند ہے کہ وہ اپنے مسئلے کے حل کیلئے امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیںاور امریکہ کی نظر تحفے تحائف، اسلحے کے عوض حاصل ہونے والی کمائی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے بے پناہ کاروبار کے مواقع تلاش کرنے پر ہے۔ عرب ممالک کے حکمران بکریوں کی مانندامریکی صدر کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے نظر آتے ہیں۔ ایسی سادہ لوح بکریاں ٹرمپ کو روئے زمین پر نہیں ملیں گی۔ بچہ ضد کررہا ہو تو والدین اسے چپ کرانے کے لئے عموماً کہتے ہیں کہ چپ ہوجائو، نہیں تو بائو بلا آجائے گا۔ ماضی میں امریکہ نے عراق ایران کو لڑایا اور عراق پر خود پِل پڑا۔ افغانستان اور لیبیا کو تباہ و برباد کیا۔ اب ٹرمپ نے عربوں سے کہا ہے کہ وہ دیکھو! ایران آرہا ہے۔ ایران کے خلاف صف بندی کرلو، اسے نشانِ عبرت بنادو۔ ہر طرح کا اسلحہ میرے ذمے۔ امریکہ ان بکریوں سے کہتا ہے کہ پیاری بکریو! جب کسی مسئلے کے حل کی ضرورت ہو، میری خدمات حاصل کرو۔ تمہارے مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا اورفوائد کا ثمر میری جھولی میں گرے گا۔ ان بکریوں کے مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وسائل امریکہ کے پاس چلے جاتے ہیں۔ مسائل کے حل کی طالب اور اسلحے کے حصول کی خواہشمند ان بکریوں سے گزارش ہے کہ انہوں نے اسلحہ لے کر کیا کرنا ہے۔ کیا بکریوں نے آج تک کوئی اسلحہ چلایا ہے۔ اسرائیل کب سے نہتے فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ اگر بکریاں اتحاد کر لیتیں اور سر جوڑ کر بیٹھ جاتیں تو ٹڈھ مار مار کر اسرائیل کی پسلیاں زخمی کردیتیں۔ چوںکہ یہ بکریاں آپس میں مذہبی اور دیگر کئی گہرے اختلافات رکھتی ہیں، اس لئے امریکہ کو اپنا ہمدرد اور ثالث سمجھتی ہیں۔ امریکہ تو یہی چاہتا ہے کہ اکیلی اکیلی بکری اس کی داڑھ کے نیچے آتی جائے اور وہ اسے چباتا چلا جائے۔
پورے عالم اسلام میں پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔ ہمارے ایٹمی میزائل جزیرہ انڈیمان تک پہنچتے ہیں لیکن ہندوستان ہماری سول آبادی پر گولہ باری کرتا رہتا ہے اور کشمیریوں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آتا۔ اسلامی ممالک کوبیک زبان ہوکر ہندوستان کو نہتے کشمیریوں کے قتل عام سے باز رہنے کا الٹی میٹم دینا چاہئے اور امریکہ پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ بھارت کو کشمیریوں پر ظلم کرنے سے روکے۔

ای پیپر دی نیشن