ہرن اور چیتا

ہرن نہ صرف اپنی پھرتی اورتیزی کی وجہ سے جنگل میں مشہور ہے بلکہ اپنے نام کی طرح بے حد چالاک بھی ہے۔ ایک چالاک ہرن بناکسی سے ڈرے بلا خوف وخطر جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک اسے چیتے کے دھاڑنے کی آواز آئی۔چالاک ہرن کیسے ہو تم؟میں بہت بھوکا ہوں ، تم میرا کھانا بن سکتے ہو۔چالاک ہرن اس کا کھانا نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھاتو کیچڑ کا ڈھیر نظر آیا اور کہا کہ میں تو بادشاہ کے کھانے کی حفاظت کر رہا ہوں اس لئے میں تمہارا کھانا نہیں بن سکتا۔ ”یہ کیچڑ“چیتے نے حیرانی سے پوچھا۔ چالاک ہرن نے کہا ”ہاں“ تمہیں کیا پتہ اس کا ذائقہ کتنا اچھا ہوتا ہے۔چیتے نے مزیدکہا ”میں بادشاہ کے اس کھانے کو چکھنا چاہتا ہوں ”نہیں نہیں چیتے بادشاہ سلامت غصہ ہونگے۔ ”لیکن میں صرف تھوڑا سا چکھوں گا، بادشاہ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔اچھا تو پھر ایسا کرو کہ مجھے یہاں سے بہت دو ر جانے دو تا کہ کوئی مجھ پر الزام نہ لگا سکے۔چالاک ہرن نے وہاں سے دوڑ لگائی۔اس کے بعد جب چیتے نے مٹی سے بھرا کیچڑ چکھا تو تھوتھو کرنے لگا۔ اسکو ہرن پر بہت غصہ آیا اور اس کو سزاد ینے کا فیصلہ کیا۔ یہ سوچ کر اس نے چالاک ہرن کاپیچھا کیا اور اس کو پکڑ لیا۔ چالاک ہرن تم نے مجھے دھوکہ دیا اب تُو میرا کھانابنے گا۔ ہرن نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور اسکو شہد کا چھتا نظر آیا۔ اس نے کہا میں تو بادشاہ کے ڈھول کی حفاظت کر رہاہوں آج تمہارا کھانا نہیں بن سکتا۔ بادشاہ کا ڈھول مگر کہاںہے؟ چیتے نے حیرانی سے پوچھا۔ چیتے نے بجانے کی ضد کی اور ایک بار مکھیوں کے چھتوں کو بجایا تو ساری شہد کی مکھیوں نے نکل کر کاٹنا شروع کر دیا اور چیتے نے پانی میں جاکر اپنی جان بچائی۔ اب تو چیتا غصہ سے بھرا پڑا تھا کہ ہرن کے ہاتھوں بیوقوف بن رہا ہے۔ تیسری مرتبہ پھر ہرن نے چیتے کو کہا کہ آج میں تمہارا کھانا نہیں بن سکتا میں بادشاہ کے بیلٹ کی حفاظت کر رہا ہوں اور وہ بیلٹ ایک اژدھا تھا۔ چیتا نے اسکو پہننے کی ضدکی ،اژدھے نے اپنا بڑا سا منہ کھولا اور چیتا ایسا ڈرا کہ پھر ادھر کا رخ نہ کیا۔
سحر امین(گورنمنٹ فاطمہ جناح کالج چونا منڈی )

ای پیپر دی نیشن