”امن اور ترقی، بذریعہ ادبِ اطفال“۔

May 31, 2017

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ،اگر ان کی اچھی تربیت کی جائے تو وہ ملک وقوم کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں ان کی تربیت میں والدین اور اساتذہ کے ساتھ اہل قلم بھی اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔اسی سلسلے میں گذشتہ ہفتے ماہنامہ پھول اور اکادمی ادبیات اطفال نے دوسری قومی کانفرنس جس کا موضوع ’’امن اور ترقی ،بذریعہ ادب اطفال ‘‘ کا پی سی لاہور میں انعقاد کیا ۔کانفرنس کا آغاز قاری احمد ہاشمی نے تلاوت قرآن مجید سے کیا۔ سرور حسین نقشبندی نے نعت پیش کی۔ محمد جمال الدین افغانی نے’’ قرآن و سنت کی روشنی میں شدت پسندی کے خاتمے میں اہل قلم کا کردار ‘‘کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر قرآن و سنت پر عمل کیا جائے تو دنیا سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کانفرنس کی نظامت شرمین قمر نے کی جبکہ بچوں کی نمائندگی کرتے ہوئے شباہت قمر نے کہا کہ ہم بچوں کے ادیبوں کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ ہمارے رہنما اور استاد ہیں۔ ہمیں ہر سطح پر ان کا احترام کرنا چاہئے۔
کانفرنس کے افتتاحی سیشن کی صدارت ابصار عبدالعلی نے کی۔ انہوں نے ’’بچوں کا ادب۔ ماضی ،حال، مستقبل‘‘ کے حوالے سے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہمارے ہاں بچوں کے ادب کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا حالانکہ بچوں کا ادب بچوں کی شخصیت پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔ حکومت اور سرکاری ادبی اداروں کو چاہئے کہ وہ بچوں کے ادیبوں کو ان کا جائز مقام دیں۔ بچوں کے ادیبوں کو بھی سول ایوارڈز دیئے جائیں۔ ماضی او حال میں بچوں کیلئے بہت عمدہ ادب تخلیق کیا گیا ہے اور مستقبل میں بھی بہتر سے بہتر ادب تخلیق کیا جائے گا۔ صرف بچوں کے ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔
اصغر ندیم سید نے کہا کہ ڈرامہ لکھنے کیلئے ڈرامے کی تکنیک سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں بہت سی چیزوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہم نے طلباء کی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں کہا ہے کہ اگر آپ کے وسائل نہیں ہیں تو ابتدا میں آپ موبائل کے ذریعے چھوٹے چھوٹے ڈرامے بنائیں جیسے جیسے آپ اس فن پر عبور حاصل کرتے جائیں مزید وسائل اور آلات استعمال کریں۔ انہوں نے کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ ایسی کانفرنسوں سے سوچ و فکر کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ ایڈیٹر ’’پھول‘‘ محمد شعیب مرزا نے اپنے خطاب میں کہا کہ بچوں کے ادیب دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ دہشت گردی میں نوعمر نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایسے نوجوانوں کو اچھا ادب پڑھے کو ملے تو وہ مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر گمراہ نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ بچپن میں پڑھی ہوئی کہانیاں اور نظمیں آج بھی یاد ہیں اور ان کے اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔
اکادمی ادبیات اطفال کے حافظ مظفر محسن نے کہا جب تک سرکاری سطح پر بچوں کے ادب اور بچوں کے ادیبوں کو ان کا صحیح مقام نہیں دیا جاتا ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم بچوں کے ادب کے فروغ کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ شیما ربانی نے ’’بچوں کے ادب کے معاشرے پر اثرات‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ بچے جو کچھ پڑھتے ہیں اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اس لیے بچوں کے لئے لکھتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہئے اور بچوں میں مثبت سوچ کو پروان چڑھانا چاہئے۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک نے ’’بچوں کے ادب میں مزاح کی ضرورت و اہمیت‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شگفتہ مزاح انسانی ذہن پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔ انسان تعمیری انداز میں سوچتا اور عمل کرتا ہے اور معاشرہ بھی پرسکون اور نفرتوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ رزاق نے ’’جامعات میں بچوں کے ادب پر تحقیق کی ضرورت‘‘ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی یونیورسٹی میں بچوں کے ادب پر تحقیقی کام کروایا ہے۔ بچوں کے ادب پر تحقیقی کام کی بہت گنجائش موجود ہے کیونکہ اس شعبے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
ڈاکٹر فرحت عباس نے ’’بچوں کی کردار سازی اور منظوم اُردو ادب‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو نظمیں ہمیشہ پسند آتی ہیں۔ چھوٹی، رواں اور آسان نظمیں بچے جلد یاد کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد طفیل نے ایک سیشن کی صدارت کرتے ہوئے ’’بچوں کا ادب مجموعی صورتحال‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے بچوں کے ادب کو تقویت حاصل ہوگی اور دیگر ادیب بھی بچوں کے لئے لکھنے کی طرف مائل ہوں گے۔ پروفیسر مسرت کلانچوی، شیخ فرید، ببرک کارمل جمالی، محمد اسحق وردگ، ساجد محمود ساجد، ڈاکٹر مزملہ شفیق،ریاض عادل، نذیر انبالوی اور عبداللہ نظامی نے اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے تاثرات پیش کئے۔کانفرنس کا خصوصی سیشن ’’کہانی کی تلاش‘‘ تھا۔ جس میں ہمت و جرأت اور ایثار و قربانی کی سچی کہانیاں پیش کی گئیں۔ اس سیشن کے صدر سابق چیف آف نیول سٹاف محمد آصف سندھیلہ نے ٹاٹ سکول سے تعلیم حاصل کر کے پاک بحریہ کا سربراہ بننے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سماجی بہبود کے کاموں میں کامیابی کی داستان بیان کی۔ بون میرو کے مرض میں مبتلا نوجوان انس عقیل نے ایڈیٹر پھول محمد شعیب مرزا کی کاوشوں اور وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے تعاون سے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد صحت یابی کی اپنی کہانی سنائی۔ پھول ٹیم کی مستقل رکن اور ہونہار مقررہ شرمین قمر نے کم وسائل کے باوجود ماں باپ کے تعاون اور حوصلہ افزائی سے انجینئرنگ کے بعد سی ایس ایس کرنے اور اسسٹنٹ کمشنر بننے تک کی اپنی سچی کہانی سنائی۔ ۔مقالہ نگاروں اور معزز مہمانوں کو ’’مجید نظامی ایوارڈ‘‘صدر الدین ہاشوانی کی کتاب ’’سچ کا سفر‘‘ اور تحائف پیش کئے گئے۔ٍ
پروفیسر مسرت کلانچوی نے اپنی پینٹنگز، تعمیر ادب کے روح رواں عبداللہ نظامی نے ملتانی اجرک اور ستارہ آمین کومل اور سدرہ نے ایوارڈز اور تسنیم جعفری نے اپنی کتابیں محمد شعیب مرزا اور حافظ مظفر محسن کو پیش کیں۔ کانفرنس میں ملک بھر سے درج ذیل مہمانوں اوربچوں کے ادیبوں نے شرکت کی۔

مزیدخبریں