گزشتہ 71 برسوں کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو قیام پاکستان سے ہی ہمارے دشمن صوبہ خیبر پی کے اور فاٹا کے قبائلی علاقوں کو لے کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔ جس کی ابتدا آزادی سے قبل صوبہ سرحد (خیبر پی کے) کے مغربی پاکستان میں شمولیت کے فیصلے کو کانگرس جماعت کے اہم رکن سردار عبدالغفار خان (باچاخان) کی طرف سے مسترد کئے جانے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ خصوصاً قبائلی علاقے جو برطانوی ہند میں انگریز حکمرانوں کیلئے بھی نظم و نسق قائم رکھنے کے حوالے سے بڑا مسئلہ رہے تھے۔ وجہ سویت یونین کے زیر اثر افغانستان کی بے جا مداخلت اور نیو دہلی میں انگریز راج کو پریشان رکھنے کی پالیسی تھی۔ تاہم جیسے ہی برطانوی ہند کی تحلیل اور قیام پاکستان کے خدوخال 1947 ءکے اوائل میں سامنے آئے تو قائداعظم محمد علی جناح کے مخالف صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے پختون رہنما¶ں نے پاکستان کی مخالفت شروع کر دی۔ ان کی قیام پاکستان میں رخنہ اندازی ناکام ہوئی تو صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف منظم مہم شروع کر دی گئی۔ تاج برطانیہ کیلئے صوبہ سرحد کو بنا کسی فیصلہ کے حل طلب مسئلہ کے طور پر چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔ صوبے میں کانگرس کی حکومت تھی‘ نیو دہلی میں کانگرس جماعت کے لیڈران نے صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کی تجویز دی تو انگریزوں نے اسے قبول کر لیا۔ کانگرس کا خیال تھا کہ وہ اپنی صوبائی حکومت کے اثر ورسوخ کی بدولت ریفرنڈم میں صوبے کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ریفرنڈم کی تجویز قبول کر لی۔ ان کی فراست اور مستقبل میں دور تک دیکھنے کی نظر ریفرنڈم کے نتائج کو بھانپ چکی تھی انہیں دو قومی نظریہ کی صداقت اور آزادی کیلئے اپنے م¶قف کی کامیابی پر یقین تھا۔ یوں مسلم لیگ ‘ کانگریس جماعت اور انگریز حکمرانوں کے مابین3 جون 1947 ءکو صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کرانے کا تحریری معاہدہ ہو گیا۔ ریفرنڈم کیلئے مہم شروع ہوئی تو کانگرس کی مقامی قیادت کو اپنی شکست کا احساس ہوا۔ کچھ م¶رخین کا م¶قف ہے کہ کابل کی خواہش پر ریفرنڈم سے فرار کی کوشش کی گئی۔ بہرحال کانگرس جماعت نے صوبہ سرحد کے انگریز گورنرSir olaf kirkpatrick kruse caroe پر قائداعظم محمد علی جناح کا دوست ہونے کا الزام لگا کر اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کر دیا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ریفرنڈم کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی۔کانگرسی سمجھتے تھے کہ قائداس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے اور تاج برطانیہ بھی اپنا گورنر جانبداری کے الزام پر ہرگز تبدیل نہیں کرے گی۔ قائداعظم نے برطانوی سرکارسے کہا کانگرس جماعت کو فرار کا موقع دینے کی بجائے صوبہ سرحد کا گورنر تبدیل کر دیا جائے۔یہ قائداعظم کی اصول پسندی اور سچ پر اعتماد کی ایک ایسی مثال تھی جس کی جمہوری اصولوں کی پابند قیادتوں میں ایک بھی نظیر نہیں ملتی۔جواہر لال نہرو کی طرف سے دئے گئے نام کو تسلیم کرتے ہوئے برطانوی سرکار نے Robert Mcgregor Mac donald کو صوبہ سرحد کا گورنر تعینات کر دیا۔ کانگرس کیلئے یہ بڑی کامیابی تھی کہ وہ صوبہ سرحد میں اپنی مرضی کا گورنر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ مغربی میڈیا میں انڈین کانگرس کے حمایتی اخبارات نے جواہر لال نہرو کے انگریز دوست کی بطور گورنر صوبہ سرحد میں تعیناتی کو کانگرس کی نفسیاتی برتری تک قرار دے دیا۔ اس کے باوجود عوامی رجحان آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناح کی طرف جھکتا ہوا نظر آیا اور سرخ پوش کانگرسی بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے تو خان عبدالغفار خان (باچا خان) نے ریفرنڈم کے بائیکاٹ اور آزاد پختونستان کا مطالبہ کردیا۔ باچاخان کے اس مطالبے نے جواہر لال نہرو اور کانگرس کی دیگر قیادت کو شرمندگی سے دوچار کر دیا۔ کانگرس جماعت کیلئے ممکن نہیں تھا کہ وہ طویل گفت وشنید اور ہر طرح کی مشاورت کے بعد ریفرنڈم کی تاریخ کیلئے باقاعدہ تحریری معاہدہ کرنے کے بعد یوں اس سے انحراف کرے ۔ جسے نیو دہلی سے شائع ہونے والے کانگرسی حمایت یافتہ اخبارات نے بھی بے اصولی کی اعلیٰ مثال قرار دے دیا۔ انہیں اخبارات میں نہرو کے بیانات موجود تھے کہ ان کی جماعت ریفرنڈم میں صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت کے مسئلہ پر قائداعظم کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گی۔ پختون قوم پرستی کو ابھارنے کیلئے مسلم لیگ کو فرنگیوں کی حمایت یافتہ جماعت اور قائداعظم کوانگریزوں کا دوست ثابت کرنے کیلئے بھرپور مہم چلائی گئی۔ نیو دہلی میں تعینات امریکی سفارتخانے کے پولیٹیکل کونسلر Howard donovan کی طرف سے امریکہ میں سیکرٹری آف اسٹیٹ جارج مارشل کی رپورٹ منظر عام پر آنے پر جس میں اس نے واضح کر دیا تھا کہ خان عبدالغفار خان کی پاکستان مخالف مہم اور اس میں کابل کی طرف سے ہر طرح کے تعاون کے باوجود مسلم لیگ بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔27 جون1947 ءکو خان عبدالغفار خان کی طرف سے پشاور میں ”پختونستان“ کے نام سے آزاد ریاست کے قیام کے اعلان کا ذکر کرتے ہوئے جارج مارشل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مسلم لیگ کی مخالفت میں پختون قوم پرستی ابھارنے کیلئے اختیار کئے گئے طریقہ کار اور افغان حکومت کا اس میں کردار صوبہ سرحد میں خانہ جنگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ خان عبدالغفار خان قائداعظم کی مخالفت میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ انہوں نے قائداعظم کی جنرل منٹگمری سے ملاقات کو سویت یونین کے خلاف سازش کی اہم کڑی قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ تاج برطانیہ صوبہ سرحدکو پاکستان میں شامل کرنے کے بعد اسے سویت یونین کے خلاف آپریشنل ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ کابل اورخان عبدالغفار خان کی طرف سے پختون‘ قوم پرستی ابھارنے اور صوبہ سرحد کے پختونوں کو افغانی ثابت کرنے کیلئے کی جانے والی تمام کوششوں کے باوجود 20 جولائی1947 کا دن آن پہنچا۔ ریفرنڈم کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ 30 جون تک جاری رہا ہے جب اس کے نتائج سامنے آئے تو دنیا دنگ رہ گئی۔ پاکستان کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد کو دیکھ کر لگتا تھا کہ پاکستان کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ کل ووٹوں کی تعداد 572799 تھی 292118 ووٹ کاسٹ ہوئے جو 50.11 فیصد بنتا ہے جسے اس وقت کے مورخین نے بہت بڑی تعداد قراردیا ڈالے گئے ووٹوں میں سے پاکستان یعنی دو قومی نظریہ کے حق میں 289244 اور مخالفت میں صرف 2874 ووٹ پڑے۔ جیت کا تناسب99.02 فیصد رہا جو کہ پختونوں کا قائداعظم کی قیادت اور پاکستان جو ابھی وجود میں نہیں آیا تھا اس پر اعتماد کا بھرپور اظہار تھا۔14اگست1947 ءکو پاکستان ایک آزاد مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آ گیا تو صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) اور ”فاٹا“ پاکستان کا حصہ بن گئے لیکن پاکستان کے خلاف کابل اور نیو دہلی کی طرف سے سازشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا کبھی اٹک کے پار کے پاکستانی علاقے کو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر افغانستان کا حصہ قراردیا گیا۔ افغان مہاجرین کی واپسی کی بات کی گئی تو دھمکی دی گئی کہ افغان مہاجرین کو ان کے اپنے علاقے سے کون نکال سکتا ہے۔ گریٹر پختونستان پرانی بات ہو گئی۔ حال ہی میں پختون تحفظ موومنٹ کو جس تیزی سے منظر عام پر لایا گیا منظور پشتین نامی نوجوان کو عالمی میڈیا نے HERO FOLK قرار دے کر اس کی نہ صرف پذیرائی کی گئی بلکہ غیر ملکی امداد سے چلنے والی این جی اوز کے ذریعے پختون تحفظ موومنٹ کو پاکستان میں پختونوں کی حقیقی نمائندہ جماعت قرار دے کر اس کی کی جانے والی حوصلہ افزائی ہو یا اندرون ملک مختلف شہروں میں منظور پشتین کے جلسوں کو کامیاب کرانے کی کوششیں یہ سب قیام پاکستان سے قبل آزاد پختونستان کے حوالے سے کی جانے والی سازشوں ہی کا تسلسل ہے جو گزشتہ 71 برسوں میں مختلف اشکال میں سامنے لائی جاتی رہیں جس کا واحد حل فاٹا کے قبائلی ایجنسیوں کا صوبہ خیبرپختونستان میں انضمام ہی تھا جس کے لئے ترمیمی بل 24 مئی2018 کو قومی اسمبلی میں منظور کر لیا گیا اس پر پاکستان کا ہر شہری خصوصاً قبائلی ایجنسیوں کے عوام مبارک باد کے مستحق ہیں جن کے معمولات زندگی پولیٹیکل ایجنٹوں و علاقے کے عمائدین (ملکوں) کے ذریعے چلائے جا رہے تھے اب وہ پاکستان کے شہری کے طور پرتمام حقوق حاصل کر پائیں گے جو قبل ازیں ان کے لئے شجر ممنوع تھے اس کے لئے ہماری پارلیمنٹ بھی مبارک باد کی مستحق ہے جس نے 117 سال بعد قبائلی علاقوں سے FCR کے خاتمہ کے بعد وہاں کے عوام کو اپیل‘ وکیل اور دلیل کا حق دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ریفرنڈم جولائی 1947 ءکے بعد ”دوسری بڑی کامیابی“
May 31, 2018