پاک بھارت فائر بندی معاہدے کی اہمیت

یہ بات تو بتدریج کھل رہی ے کہ جنوبی ایشیاء کے معاملات کے بارے میں فکر مند عالمی اور علاقائی قوتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلسل اور گہری ہوتی کشیدگی کے بارے میں انتہائی خاموشی سے کچھ نہ کچھ کردار ادا کرنا شروع ہوگئی ہیں۔ اس حوالے سے بیک ڈور ڈپلومیسی نہ ہورہی ہوتی تو منگل کے دن پاکستان اور بھارت کے (DMOs) Directors of Military Operationsکے مابین نظر بظاہر ’’معمول‘‘ کے مطابق ہوئے ٹیلی فونی رابطے کے نتیجے میں یہ طے نہ ہوپاتا کہ دونوں ممالک کے مابین 2003میں لائن آف کنٹرول (LOC)پر فائر بندی والے معاہدے کی ہر صورت (Letter and Spirit)پابندی کی جائے گی۔
2003کے سال میں پاک-بھارت تعلقات پر نظر رکھنا میری پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ میں بہت تفصیل سے یہ بیان کرسکتا ہوں کہ جنرل مشرف کی حکومت کو مذکورہ معاہدے کے لئے کیسے رضا مند (مجبور کا لفظ جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا ہوں) کیا گیا تھا۔ وہ تفصیل بتانے کے بعد بالآخر ہوئے معاہدے کے "Letter and Spirit"کو سمجھانا بھی میرا اخلاقی فرض بن جاتا ۔ یہ وقت مگر مصلحت کا متقاضی ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر تعینات افواج کے مابین فائرنگ معمول کی ٹھوں ٹھاں سے زیادہ سنگین ہونا شروع ہوجائے تو حتمی نقصان دونوںاطراف مقیم شہری آبادی کا ہوتا ہے۔ ان کے روزمرہّ معمولات خوف کی فضا میں ٹھپ ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کی اصل مجبوری یہ بھی ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار بھی کشمیری مسلمان بستے ہیں۔ ہم بھارتی افواج کی ناجائز بمباری سے اُکتا کران کی زندگی اجیرن نہیں بناسکتے۔ فائربندی ان کے تحفظ کے لئے بھی لہذا انتہائی ضروری تھی۔
ایک ریٹائرڈ ہوئے رپورٹر کی حیثیت میں میرا دعویٰ ہے کہ اپریل 2018میں ہمارے آرمی چیف نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معقولیت کی شکل دینے کی جس خواہش کا اظہار کیا تھا،اس نے منگل کے روز ہوئے بندوبست کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بات فقط اس بیان تک محدود مگر نہیں رکھی جاسکتی۔ ہمارا ایک دوست چین بھی ہے۔ عالمی اقتصادی قوت بن جانے کے بعد اب وہ عالمی سفارت کاری میں بھی فعال کردار ادا کررہا ہے۔ چند ہفتے قبل چینی صدرنے بھارتی وزیر اعظم کو ایک غیر رسمی ملاقات کے لئے مدعوکیا تھا۔ اس ملاقات کے اختتام پر دونوں ممالک کی جانب سے محتاط الفاظ میں مختصر بیانات جاری ہوئے۔ پاکستان کا یقینا ان میں ذکر نہیں ہوا۔ یہ سوچنا مگر زیادتی ہوگی کہ چینی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کے مابین ہوئی اس اہم ملاقات میں پاک-بھارت کشیدگی کا ذکر نہیں ہوا ہوگا۔
مودی سرکار چینی صدر کی جانب سے اس ضمن میں ہوئی گفتگو کو سنجیدگی سے لینے پرمجبور ہوئی ہوگی کیونکہ اس ملاقات سے قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)کے اجلاس میں چین نے پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی۔ سعودی عرب بھی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا تھا۔ محض ترکی نے ہمیں بلیک لسٹ میں دھکیلے جانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ چین نے FATFکے حالیہ اجلاس میں اپنے کردار کی بدولت بھارت میں یقیناکچھ Good Willپیدا کی۔ اس کی وجہ سے چین کے لئے آسان ہوگیا کہ وہ بھارت کو پاکستان سے تعلقات کو معقول حد تک نارمل بنانے میں اہم کردار ادا کرسکے۔
LOCپر فائربندی کے معاہدے کو ہمیں ایک اور حقیقت کے تناظر میں بھی رکھ کر دیکھنا ہوگا اور وہ حقیقت ہے 25جولائی 2018کے دن پاکستان میں نئے انتخابات کے انعقاد کا اعلان۔ یہ بات واضح ہے کہ وافر تعداد میں فوجی دستوں کی جانب سے انتخابی عمل کی نگرانی کے بغیر اس عمل کو قابلِ اعتبار بنانا ممکن نہیں تھا۔ ہماری فوج مگر گزشتہ کئی مہینوں سے افغانستان کے ساتھ ملحق قبائلی علاقوں میں مصروف ہے۔ دریں اثناء اگر مشرقی محاذ بھی LOCپر مسلسل فائرنگ اور بسااوقات ورکنگ بائونڈری پر ہوئی خلاف ورزیاں شدید تر ہونا شروع ہوجاتیں تو پاک فوج کے لئے بھارتی سرحد پرمزید دستوں کی تعیناتی کا سوال اُٹھ کھڑا ہوتا۔ ان دونوں سرحدوں پر کڑی نگرانی اور Vigilantرہنے کی خاطر پاک فوج کے لئے انتخابی عمل کی نگرانی کے لئے ہزاروں نوجوانوں کو Spareکرنا ناممکن نہ سہی تو بہت مشکل ضرور ہوجاتا۔ اس مشکل کو ذہن میں رکھتے ہوئے منگل کے دن فائر بندی کی اہمیت مزید اجاگر ہوجاتی ہے۔
ہمیں ہر پل باخبر رکھنے کے دعوے دار میڈیا نے مگر ان تمام پہلوئوں پر ہرگز توجہ نہیں دی ہے۔ ایک صحافی ہوتے ہوئے بھی لیکن انتہائی شرمساری کے ساتھ میں یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ بہتر ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے ’’جی دار‘‘ اور بڑھک باز میڈیا کو سفارت کاری کے عمل میں انتہائی احتیاط اور معقول انداز میں اٹھائے اقدامات کے بارے میں ’’بے خبر‘‘ رکھ رہے ہیں۔
اس ’’بے خبری‘‘ کا جواز ڈھونڈنے کے باوجود میری دلی خواہش اپنی جگہ موجود ہے کہ میرے ساتھیوں نے اپنے طورپر بھی سفارتی محاذ پر نگاہ رکھی ہوتی۔ صحافت بنیادی طورپر تجسس کا تقاضہ کرتی ہے۔رپورٹر کوئی خبر دینے کے لئے Whatsappپر ا ٓئے پیغامات یا پریس ریلیزوں تک محدود ہوجائے تو صحافی نہیں رہتامنشی بن جاتا ہے۔ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ میرے نوجوان ساتھیوں کو ’’منشی‘‘ کہلوانے سے گھن آئے۔ وہ کسی نہ کسی صورت اپنے پیشہ ور تفاخر کو برقرار رکھ سکیں۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن