سکیورٹی اہلکاروں کی پھرتیاں دیکھیں۔ ایک شخص نواز شریف سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا۔ وہ ان کی طرف بڑھا تو سکیورٹی اہلکار اس پر ٹوٹ پڑے۔ نواز شریف کے پاس بیٹھی مریم نواز حیران پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو منع کیا۔ نواز شریف نے بھی کچھ کہا۔ مگر سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیا۔ نواز شریف نے اس آدمی کو گلے سے لگایا مگر ہاتھ نہیں ملایا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نجانے کیوں یہاں مریم نواز کی تقریر بہت اچھی تھی۔ ان کی تقریریں اچھی ہوتی ہیں مگر آج؟
ایک دوسری خبر بھی دیکھئے کہ چند پولیس افسران اور نوجوان سفید کپڑوں میں تھے۔ مگر ایک گھر میں گھس گئے اور گھر والوں پر زبردست تشدد کیا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ بھی اخبار میں ہے کہ 28 پولیس والوں نے 417 خطرناک اشتہاری مجرموں کو پناہ دے رکھی ہے۔
آج کل ایک بڑے بیوروکریٹ احد چیمہ کی بڑی بڑی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ انہیں یہ مقدمہ بھگتنے کے بعد سیاست میں حصہ لینا چاہئے۔ وہاں وہ آسانی محسوس کریں گے۔ وہاں ان کے جیسے بہت لوگ ہیں۔ ان سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے ہیں۔ ہم صرف سیاستدانوں کے خلاف لکھتے رہتے ہیں۔ بیوروکریٹ ہی سیاستدانوں کی تربیت کرتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ بیوروکریسی کو براکریسی کہا تھا جسے سب سے زیادہ بیوروکریٹس نے انجوائے کیا تھا۔
نگران وزیراعظم کے لئے جتنی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور تفتیش کی جاتی ہے وہ مستقل وزیراعظم کے لئے نہیں کی جاتی۔ معین قریشی کے پاس تو شناختی کارڈ بھی نہ تھا اور انہیں اپنی والدہ کی قبر کا بھی پتہ نہ تھا۔ اس سے پہلے ہم نے ان کا نام بھی نہ سنا تھا۔ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے لئے برسوں کے بعد پاکستان آئے تھے۔ اس سے پہلے معین قریشی امریکہ میں تھے اور انہیں پوری طرح تیار کیا گیا تھا۔ اگر وہ پاکستان کو چلا سکتے تھے تو کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ اب تو بہترین انتخاب سامنے آیا ہے۔ سابق چیف جسٹس ناصرالملک بہترین انتخاب ہے۔ وہ بھی بیوروکریٹ ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اگر ایک ضلع کا ڈی سی اور ایک محکمے پر سیکرٹری پوری طرح اہل اور شفاف آدمی ہو تو پھر سیاستدان بھی قابو میں رہیں گے اور پاکستان ترقی کرے گا۔
ہمارے دوست نوائے وقت کے دفتر میں اکثر آنے والے شیخوپورہ سے ممبر اسمبلی بہت نفیس اور دوستدار آدمی عارف سندھیلہ کچھ دنوں کے بعد اخبارات میں نظر آتے ہیں۔ خبر نہ ہو تو ان کا اشتہار چھپا ہوا ہوتا ہے۔ آج انہوں نے کہا ہے کہ یوم تکبیر بہت بڑا کارنامہ ہے اور اس کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے۔ عارف صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ کریڈٹ تو ڈاکٹر قدیر خان کا بھی ہے اور کچھ بھٹو صاحب کا بھی ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق سربراہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ درانی صاحب کے حوالے سے پاکستان میں کہا جانے لگا ہے۔
یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی تو اب اسے پتہ چل گئی ہے۔ بھارت کی طرف سے کوئی خاص بیان نہیں آیا۔ اب پاکستان میں بھی کئی لوگ درانی صاحب اور دلت کے دفاع میں آ گئے ہیں۔
میں اخبار میں دیکھتا ہوں کہ کوئی نئی بات کس اخبار میں ہے۔ آج روزنامہ ’’خبریں‘‘ میں تحریک انصاف کی رہنما ثروت روبینہ نے ایک بہت اچھا کالم لکھا ہے۔ انہوں نے کیلاش کا سفر اپنے پارٹی ساتھیوں کے ساتھ کیا۔ اب میرے دل میں بھی کیلاش جانے کی آرزو پیدا ہو گئی۔ بہت آسانی اور روانی سے ثروت نے لکھا ہے۔ اس طرح کے کم کم لکھنے والے لوگ چاہیں تو وہ لکھ سکتے ہیں۔ کیلاش میں ایک تہوار چلم چوشی تہوار ہوتا ہے اپنے کالم کا عنوان بھی ثروت نے یہی رکھا ہے یوں لگا جیسے اس کے ہمسفر ہوں۔
خاور نعیم ریگولر کالم نگار نہیں ہیں مگر ایک تحریر میں کہا ہے کہ قانون سے کوئی بالا نہیں ہے۔ درانی اور دلت کے حوالے سے بہت مختلف کالم لکھا ہے ورنہ اب اس سلسلے میں دوستوں کی تکرار نے بات بے مزہ کر دی ہے۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ یہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ فوج ہی اس سلسلے میں کوئی اقدام کرے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ نامزد نگران وزیراعظم ناصرالملک نے کہا ہے کہ جب تک باقاعدہ وزیراعظم کا چارج نہیں لے لیتا۔ میڈیا کے سامنے کوئی بات نہیں کروں گا ’’کڑاکے کڈھ دیو‘‘ برادرم مشاہد حسین کا تکیہ کلام ہے۔ انہوں نے درانی دلت کی مشترکہ کتاب کے حوالے سے نواز شریف کو کہا کہ دھماکے کرو۔ کڑا کے کڈھ دیو۔ مرحوم مجید نظامی نے بھی نواز شریف کو کہا کہ دھماکے کرو ورنہ قوم تمہارا دھماکہ کر دے گی۔
نگران وزیراعظم کے لئے فیصلہ کر لیا گیا تھا مگر نواز شریف نے مسترد کر دیا۔ نواز شریف کے وزیر عباسی صاحب نے ٹھیک کہا تھا کہ اصل وزیراعظم نواز شریف ہیں۔ ایک محفل میں کہا گیا کہ بھارت نے چار ہزار ڈیم بنا لئے ہیں۔ ہمارے پاس تین سو سے کم ڈیم ہیں۔ ٹھیک کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں پانی کے مسئلے پر جنگ ہو گی جس کے لئے بھارت کا نقصان بہت ہو گا۔
٭٭٭٭٭