پاکستان اسوقت بدترین سیاسی ماحول اور ملک میں الیکشن سے پہلے سیاست دانوں کی بھونڈی گفتگو، کیچڑ اچھالنے اور ملک کو بالائے طاق رکھ کر غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے اور شرمندہ ہوئے بغیر اپنے بیانات پر قائم رہنے کے گھناونے طرز عمل سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف احتساب در احتساب چل رہا ہے۔ عدالتیں بھی فل فارم میں ہیں۔ نیب اور سیاست داں بھی دست بہ گریباں ہونے پر تلے ہوئے ہیں۔ مائنس مائنس کی سیاست ہو رہی ہے۔ انجینئرڈ سیاست کا دور دورہ ہے۔ ن لیگ کی نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست ملک کی سا لمیت سے بڑھ کر ذاتی اور ہم نہیں تو کچھ نہیں پر نظر آرہی ہے۔ شہباز شریف ن لیگ کو بچاتے بچاتے خود بھی احتساب کے شکنجے میں بیٹے سمیت پھنستے جا رہے ہیں۔ ن لیگ ملک دشمن جماعت کا روپ دھار رہی ہے۔ تمام ملک دشمن عناصر اسکی حمایت کرکے اس پر مزید مہر لگا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی اب احتساب کے شکنجے میں کستی نظر آرہی ہے۔پارلیمانی سیاست آخری دنوں میں جوتے دکھانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی طرف بھی مائل نظر آرہی ہے۔ن لیگ کے بھارت کی حمایت والے بیان میں ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر بھارت کو پاکستان کے خلاف نیا ایندھن دیا ہے۔ نواز شریف نے کلبھوشن یادیو کا کردار بے نقاب کرنے کے بجائے بھارت یاترا کرکے عمران خان کے بھارت سے نواز شریف کی محبت اور کاروبار پر انکشافات پر مثبت ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ اقتدار کے لئے ملک کو دا? پر لگانے کا یہ عمل افسوسناک اور سیاسی تاریخ میں کلنک کے مترادف ہے۔ ادھر سندھ میں بھی نیب نے اب بھرپور تیاری کرکے بدعنوانوں کو پکڑنے کی بساط بچھا دی ہے۔ پی ٹی آئی نے وزات عظمی کے خواب دیکھنے شروع کردیئے ہیں اور پہلے 100دن کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ایم ایم اے ملک بھر میں نئی منصوبہ بندی کرکے نشستیں جیتنے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔ یہی نہیں جوں جوں حکومت کے دن ختم ہونے کی جانب آرہے ہیں۔ کچھ اور حقیقتیں آشکار ہو رہی ہیں۔ ن لیگ ، پی پی پی ، پی ٹی آئی ، سب کے افراد وفاداریاں بدل رہے ہیں۔ن لیگ کے قائد کی جارحانہ سیاست انہیں بند گلی میں لا رہی ہے۔ بلدیہ غربی جاوید قمر سے شروع ہونے والا سلسلہ اطلاعات کے مطابق رمضان سولنگی سے سیکریٹری بلدیات رمضان اعوان اور وزیر بلدیات جام خان شورو تک جا رہا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم بھی اس دوڑ میں آچکی ہے۔ سیف عباس کی گرفتاری بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بعض سیکریٹریز نے اپنے وزرائ کی کرپشن کی خفیہ رپورٹس نیب کو ارسا ل کی ہیں جنکی بنیاد پر انکوائریز ہو رہی ہیں اور نگراں حکومت کے آتے ہی گرفتاریاں متوقع ہیں۔ اسکی کڑیاں وزیر اعلی سندھ تک جاتی ہیں۔ جبکہ الیکشن سے پہلے بے رحم احتساب کی چکی بھی چلنے والی ہے۔ نیب اور اینٹی کرپشن کے ایک اہم زریعہ کے مطابق متعدد افسران اور سیاسی رہنما عید گھر پر نہیں منا سکیں گے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ میئر کراچی کے خلاف بھی ایم کیو ایم پی آئی بی کی سازش چل رہی ہے انکی خواہش ہے کہ میئر کے دفتر پرچھاپہ پڑوایا جائے۔لیکن اس میں کوئی ابہام نہیں کہ انجینئرڈ سیاست ہونے جا رہی ہے۔اب ایک نئی روایت جنم لے چکی ہے کہ اپنی ہی حکومت میں احتساب بے دخلی اور گناہوں کی سزا بھگتو۔ یہ کام پی پی پی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اورر پی ٹی آئی کے ساتھ بھی۔ گڈ گورننس میں کوئی صوبہ بھی بہتری کا دعوی نہیں کرسکتا لیکن کام کے اعتبار سے پنجاب پہلے نمبر ہے۔ پولیس نظام کے لحاظ سے کے پی کے دوسرے نمبرپر ، بلوچستان شورش زدہ علاقہ ہے۔ سندھ میں بیڈ گورننس اور نفرت کی سیاست اور آخر میں اردوکے خلاف مہم نے اسکے نظریات کو بھی واضح کردیا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں خود ایم کیو ایم اسکی تباہی کی ذمہ دار بن چکی ہے۔ گزشتہ روز سندھ اسمبلی کے جمعہ اور ہفتہ کے اجلاس میں لندن یاترا کے دو کردار بے نقاب ہوئے۔مبصرین حیران ہیں کہ نائلہ منیر (نائلہ لطیف ) جو ہیر سوہو کے ساتھ سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ بیچنے پی پی پی کی دعوت میں شریک ہوئیں قیمت وصول کرکے پی ایس پی میں شامل ہوگئیں اچانک انکی سندھ اسمبلی میں الطاف حسین سے محبت جاگ گئی۔ حیرت یہ ہے کہ وہ جس جماعت میں گئی ہیں وہ الطاف حسین کو برا بھلا مغلظات بکنے والی جماعت ہے۔ نائلہ لطیف نے اے پی ایم ایس او سے لیکر ایم کیو ایم تک مالی ، اپنے بھائی کرکٹر راشد لطیف کو مالی فائدے اور خود تمام تر مراعات اور اسمبلیوں کے مزے لئے ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان کو خیر آباد کہنے کی وجہ کامران ٹیسوری کو بنایا اور ہیرسوہو کے ساتھ مک مکا کرکے سینیٹ کی سیٹ کی رقم لیکر پی ایس پی کا حصہ بن گئیں۔ اب وہ کس منہ سے غداری پر غداری کے بعد ایم کیو ایم کو یا ایجنسیوں کو لتاڑ نے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ وہ خود داغدار ہیں۔ اسی طرح ایک اور رہنما نے بھی الطاف حسین کا شکریہ ادا کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کتنے دھڑوں میں بانٹی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کی تقسیم کے فارمولے کے تحت ڈاکٹر فاروق ستار نے 5مئی کے جلسے کے بعد بھی ہٹ ایم کیو ایم کو منتشر رکھنے کی کھلی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ فاروق ستار کنوینر شپ دوبارہ ملنے کے باوجود اسے لینے کو تیار نہیں وہ ٹکٹ ، سربراہی اور من مانے اختیارات چاہتے ہیں۔ وہ بعض اطلاعات کیمطابق ایم کیو ایم کو الیکشن تک منتشر رکھ کر کسی اور کو فائدہ دینا چاہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی یہ مثال ہے کہ آپ ہی اپنے دام میں صیاد پھنس گیا۔ جسکی وجہ سے شہری علاقوں کی سیاست میں یو ٹرن آتا نظر آرہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک مخصوص منصوبے کے تحت ایم کیو ایم کا مینڈیٹ چھیننے کی سازش ہو رہی ہے اور یہ ایم کیو ایم کے اندر سے ہو رہی ہے۔ایم کیو ایم کے آئین کی تبدیلی اور مطلق العنان اختیارات اور پی ایس پی کے ساتھ مرجر کی جن افراد کے ساتھ سازش کی گئی تھی۔ سازش پکڑے جانے کے بعد سے ایم کیو ایم میں اختیارات کی جنگ نے راستہ بنایا۔ اصل آئین کی بحالی نے مرجر کا امکان ختم کردیا۔ جبکہ دوسری جانب ایم کیو ایم کے بہادر آباد مرکز اور کنوینر خالدمقبول صدیقی اور عامر خان ، کنور نوید ، وسیم اختر، نسرین جلیل، فیصل سبزواری، خواجہ اظہار الحسن ، سید امین الحق و دیگر نے جو ایم کیو ایم کے اسٹرکچر کے سینئر ترین رہنما ہیں اور پارٹی پر گرفت رکھتے ہیں کامیابی کے لئے اپنے تنظیمی اسٹرکچر کو کھڑا کردیا ہے جو صلاحیت رکھتا ہے کہ ہر سازش کا ناکام بنادے۔ فاروق ستار جلد یا بدیراگر پارٹی کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو یہ اسٹرکچر انہیں مات دے سکتا ہے وہ پہلے ہی کمزور پوزیشن پر ہیں۔ایم کیو ایم بہادر آباد کی پوزیشن انکے مقابلے میں انتہائی طاقتور ہے اور انکے پاس ہر سازش کا متبادل موجود ہے۔لیکن ایک جانب فاروق ستار کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ رئیس مما اور سرفراز مرچنٹ کے کیسوں میں انکے بیانات اور اداروں کی جانب سے کسی بھی وقت ایکشن متوقع ہو سکتا ہے۔ فاروق ستار کے دست راست سیف عباس کی گرفتاری بھی مستقبل میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے لئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ الیکشن سے پہلے صورتحال سب کی دگرگوں نظر آتی ہے جو عوام کو بھی کنفیوڑرکھے گی۔