مخدوم احمد محمود صدر پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی طرف سے جاری کردہ بیان انتہائی تعجب خیز ہے جس میں انہوں نے این اے 175 کے قومی اور اس کے تحت صوبائی امیدواروں کے ٹکٹ فائنل ہونے کے بارے میں اعلان کیا ہے۔
قومی اور صوبائی اسمبلی کی نئی حلقہ بندی کے اعتبار سے این اے 175 پہلے این اے 192 تھا جس سے 2008 ء کے انتخابات میں حامد سعید کاظمی بھاری اکثریت سے پی پی پی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اس کے مقابلے میں حلقہ انتخاب سے مخدوم احمد عالم انور اور ضلع رحیم یار خان کی مخدوم احمد محمود قد آور شخصیات تھیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اصل مقابلہ انہی دو مخادیم میں تھا اور پیپلزپارٹی نے مناسب امیدوار نہ ملنے کی وجہ سے خانہ پری کیلئے حامد سعید کاظمی کو ٹکٹ دے دیا کیونکہ پورے حلقہ انتخاب سے ایک آدھ قابل ذکر شخصیت کے سوا کوئی ناظم ‘نائب ناظم بااثر شخصیت یا زمیندار حامد سعیدکاظمی کے ساتھ تھا لیکن انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے سارے سیاسی تجزیوں کو غلط ثابت کردیا۔ بہرحال کاظمی صاحب ایم این اے منتخب ہونے کے بعد وفاقی کابینہ میں بطور وزیر مذہبی امور شامل کئے گئے اور ان کے خلاف سازشوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے اور ان کے سرکاری ڈرائیور اور گن مین کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ پھر حج سیکنڈل کے تانے بانے بنے گئے اور ساری دنیا میں ان کے کردار کشی کی منظر مہم چلائی گئی۔ پھر2013 ء کے انتخابات میں ان کو انتخابی سیاست سے دور رکھنے کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے گئے اس سے علاقے کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ان کی صحیح طور پر سپورٹ نہ ملنا انتخابی حلقے میں فنڈز کی عدم فراہمی‘ ان کے ووٹر سپورٹرز کو بے یارومددگار چھوڑنا ان کے خلاف سازشی مہم کا بہت اہم حصہ ہے لیکن آصف علی زرداری نے کاظمی صاحب کو ہر مرحلے پر جو اخلاقی مدد اور عزت دی اس کی وجہ سے کاظمی صاحب تحفظات کے باوجود پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے۔
مخدوم احمد محمود کی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد اب ضلع رحیم یار خان میں پیپلز پارٹی انہی کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ مخدوم شہاب الدین جیسی شخصیات بھی غیر موثر اور غیر فعال دکھائی دیتی ہیں۔ جاوید وڑائچ کو بھی پیپلز پارٹی سے باہردھکیل دیا گیا ہے اب کچھ ایسی صورتحال کا سامنا کاظمی صاحب کو بھی ہے۔
ہر سیاسی جماعت انتخابات سے پہلے صوبائی اور قومی انتخابی حلقوں سے الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں سے درخواستیں طلب کرتی ہے۔ درخواست دینے والے امیدواروں کو پارلیمانی انٹرویو کیلئے بلاتا ہے اس انٹرویو میں امیدوار کی صلاحیتوں‘ سیاسی خدمات‘ عوامی رابطوں اور کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیکر اور پارٹی سے وابستگی کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔
2018 ء کے انتخابات کیلئے اب تک نہ تو پارلیمانی بورڈ کی تشکیل ہوئی ہے اور نہ ہی مختلف قومی و صوبائی حلقوں سے درخواستیں مانگی گئی ہیں ظاہر ہے کہ انٹرویو کا مرحلہ شروع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب پورے پاکستان میں کسی اور انتخابی حلقے کے بارے میں کوئی فیصلہ اور کوئی اعلان نہیں ہوا تو آخر لیاقت پور کا فیصلہ بقول مخدوم صاحب کر دیا گیا ہے سیاسی حلقوں میں یہ سوال پوری شدت کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اب پی پی پی جیسی جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعت میں جمہور کی رائے اور زمینی حقیقتوں کو نظرانداز کر کے وڈیرہ شاہی اور آمرانہ روایات کو فروغ دیا جائے گا۔
یاد رہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ جتنی عزت حامد سعید کاظمی کو دیتے ہیں وہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ایسے میں مخدوم صاحب کا بیان کیا پی پی پی کی اعلیٰ ترین قیادت کی خواہش سے متصادم نہ ہو گا۔ مخدوم احمد محمود کی بھاری بھر کم شخصیت اور کاظمی خاندان کی عوام میں عقیدت و محبت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کسی بڑی آزمائش سے دو چار تو نہ ہو جائے گی؟
شنید ہے کہ حامد سعیدکاظمی اس صورتحال سے برگشتہ ہی نہیں ناراض بھی ہیں۔ صرف آصف علی زرداری سے ذاتی تعلق اور مروت ان کیلئے رکاوٹ ہے وگرنہ وہ کسی بھی وقت اپنے سابقہ حلقہ انتخاب لیاقت پور سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ آزاد حیثیت میں کاظمی صاحب الیکشن میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ پر لیکن کاظمی صاحب نے اپنے لئے ممکنہ آزاد صوبائی امیدواروں سے رابطے شروع کردیئے ہیں اگر ایسا ہوا تو جنوبی پنجاب بالخصوص ضلع رحیم یار خان میں پی پی پی کی کامیابی کی امیدیں خاک میں مل سکتی ہیںاورجنوبی پنجاب کا سیاسی منظر نامہ بہت تبدیل ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
لیاقت پور سے حامد سعید کاظمی کوآئوٹ کرنے کی سازش؟
May 31, 2018