ریاست سے ٹکرانے والوں اور پرامن احتجاج کرنیوالے سیاسی کارکنوں کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکیں

May 31, 2019

اداریہ

بلاول سے اظہار یکجہتی کیلئے اسلام آباد آنیوالے پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال اور ردعمل
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جعلی اکائونٹس کیس میں نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیشی کے موقع پر انکے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے آنیوالے پیپلزپارٹی کے قائدین اور کارکنوں کو منتشر کرنے کیلئے گزشتہ روز اسلام آباد پولیس نے آنسو گیس‘ لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال کیا اور خواتین ارکان قومی اسمبلی مسرت رفیق اور شازیہ سومرو سمیت پیپلزپارٹی کے کئی جیالوں کو گرفتار کرلیا۔ اس موقع پر پولیس اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے مابین تصادم بھی ہوا۔ اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے اسلام آباد میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی گئی اور دیگر شہروں سے اسلام آباد آنیوالے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو روکنے کا باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے حکم جاری کیا گیاجس میں باور کرایا گیا کہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے اسلام آباد میں داخلے سے حالات خراب ہو سکتے ہیں تاہم مقامی انتظامیہ کی عائد کردہ اس پابندی کے باوجود پیپلزپارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں نیب ہیڈکوارٹر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور وہاں بلاول بھٹو زرداری کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ پارٹی کے جیالے بلاول سے اظہار یکجہتی کیلئے زرداری ہائوس پہنچے تو انہیں ایوب چوک پر روک لیا گیا جہاں پولیس اور پی پی کارکنوں کے مابین گھمسان کا رن پڑا جبکہ پیپلزپارٹی کے کارکن آنسو گیس‘ لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا سامنا کرتے ہوئے بلاول کے ہمراہ نیب آفس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ کارکنوں کے ہمراہ پیپلزپارٹی کے ارکان پارلیمنٹ بھی وہاں پہنچے جنہیں پولیس نے ڈی چوک سے نیب ہیڈکوارٹر جانے کی اجازت دی۔ بلاول کے ہمراہ انکی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری‘ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف‘ سید نویدقمر‘ مصطفی نواز کھوکھر‘ مرتضیٰ وہاب اور نیربخاری بھی نیب ہیڈکوارٹر آئے۔ پولیس نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی دھنائی اور گرفتاری کے موقع پر ایک اخبار کے فوٹوگرافر کو بھی گرفتار کرلیا تاہم صحافیوں کے احتجاج پر انہیں چھوڑ دیا گیا۔
پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو روکنے کیلئے اسلام آباد کے تمام داخلی راستے سیل کردیئے گئے تھے جس کے باعث سرکاری ملازمین بھی کوسوں کا سفر پیدل طے کرکے اپنے دفاتر آئے۔ نیب کے دفتر کے اطراف جیالوں کے علاوہ میڈیا کا داخلہ بھی بند تھا جبکہ زرداری ہائوس کے داخلی راستوں پر بھی پولیس کی نفری تعینات کی گئی تھی۔ تاہم پولیس جیالوں کو زرداری ہائوس میں داخل ہونے سے روکنے میں ناکام ہو گئی۔ پولیس نے گرفتار کئے گئے کارکنوں کو حوالات میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا جنہیں بلاول نے زرداری ہائوس میں افطاری کرائی۔ انہوں نے نیب میں پیشی کے بعد جارحانہ انداز میں ہنگامی پریس کانفرنس کی اور عیدالفطر کے بعد حکومت کیخلاف سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سلیکٹڈ حکومت نامنظور ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز‘ اپوزیشن اور جرنلسٹ بھی انکی طرح سلیکٹڈ ہوں۔ بلاول کے بقول پرامن لوگوں کیخلاف حکومت اور ریاست نے جو رویہ اپنایا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اظہار رائے اور جمہوریت میں حصہ لینا سب کا حق ہے۔ حکومت نیب کو بھی دبائو سے چلا رہی ہے اور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت پسند ججوں کیخلاف بھی سازش کررہی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیراعظم عمران خان مخالفین کیخلاف ریاست کو استعمال کررہے ہیں۔
سلطانیٔ جمہور میں اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور قومی امور پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ آئین پاکستان میں بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں آزادیٔ اظہار اور اپنے موقف کے اظہار کیلئے سڑکوں پر آنے کا حق دیا گیا ہے۔ اگر کسی حکومت اور اسکے ماتحت انتظامی مشینری کی جانب سے شہریوں کے اس حق پر قدغنیں لگائی جائیں تو اسے عرف عام میں آمریت سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ آمریت جمہوریت کی ضد ہوتی ہے۔ سلطانیٔ جمہور باقاعدہ ایک آئینی سسٹم کے ساتھ استوار ہوتی ہے جس میں عام انتخابات کے ذریعے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنیوالی پارٹی مسند اقتدار پر بیٹھتی ہے اور انتخابی میدان میں اترنے والی دوسری پارٹیاں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر اپنے ووٹروں اور عوام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سلطانیٔ جمہور کو اچھی سے اچھی آمریت سے بھی اس لئے بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اس میں حکومت اور اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے والے تمام ارکان عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آئے ہوتے ہیں جو عوام کی توقعات پر پورا نہ اتریں تو عوام کو انکے محاسبہ کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ اسکے برعکس آمریت میں جمہوری اقدار کی پاسداری اور آئین و قانون کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اگر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آنیوالی کوئی حکومت آمرانہ طرز عمل اختیار کرلے تو اس سے لامحالہ جمہوریت کا مردہ خراب ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم چار جرنیلی آمروں کو بھگتا کر اب ایسی آمریت کا سایہ بھی ملک و قوم پر نہ پڑنے دینے کی متمنی ہے اس لئے وہ کسی جمہوری حکومت کی جانب سے آمرانہ طرز حکومت اختیار کرنے کا اقدام بھی قبول نہیں کر سکتی۔
عمران خان اسی تناظر میں اپنے اپوزیشن کے دور میں اس وقت کی حکومت کو اپنی طویل دھرنا تحریک اور منتخب ایوانوں کے اندر اور باہر دوسرے احتجاجی پروگراموں کے ذریعے اسکے پورے عرصۂ اقتدار کے دوران زچ کرتی رہی ہے اور ماسوائے پی ٹی آئی کے ’’لاک ڈائون‘‘ پروگرام کے‘ اسے اپنی حکومت مخالف تحریک میں حکومتی ایماء پر کسی ریاستی جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ انکے پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنے کے دوران پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنان وزیراعظم ہائوس‘ پاکستان ٹیلی ویژن اور دوسری سرکاری عمارات میں گھس کر قانون ہاتھ میں لیتے توڑ پھوڑ اور تشدد کے مرتکب بھی ہوتے رہے مگر انہیں منتشر کرنے کیلئے اس انداز میں کبھی ریاستی مشینری کا استعمال نہیں کیا گیا جیسا گزشتہ روز اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور اس سے قبل کوٹ لکھپت میں میاں نوازشریف کے ساتھ آنیوالے مسلم لیگ (ن) کے سیکڑوں کارکنوں کیخلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج کرنے کی صورت میں ریاستی مشینری کو استعمال کیا گیا۔ اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ن)‘ اے این پی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلاء تنظیموں کو بھی متذکرہ حکومتی اقدامات کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کا موقع ملا۔ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم ہونے کا طعنہ دیا تو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے انہیں یہ کہہ کر مطعون کیا کہ اسلام آباد کو مفلوج کرنیوالا خود چھوٹا سا احتجاج بھی برداشت نہیں کر سکا جبکہ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی نے پی ٹی آئی حکومت پر انتقام میں اندھی ہونے کا الزام عائد کیا۔ اسی طرح آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں باور کرایا کہ جیالے پھانسی سے نہیں ڈرے تو پانی سے کیا ڈریں گے۔
اپنے پارٹی قائدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے لاہور اور اسلام آباد میں آنیوالے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے‘ توڑ پھوڑ کرنے‘ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والا کوئی دوسرا اقدام نہیں اٹھایا گیا جن پر ریاستی طاقت کا استعمال بادی النظر میں دور آمریت کی یاد ہی دلاتا ہے چنانچہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کا متحد اور منظم ہو کر احتجاج کرنا بھی فطری امر ہوگا۔ اگر تو کسی کی جانب سے حکومتی اور ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کیا جا رہا ہو جیسا کہ وزیرستان میں پی ٹی ایم کے قائدین کی جانب سے ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا اور قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی گئی تو پھر حکومت ان کیخلاف انتظامی ریاستی مشینری استعمال کرنے میں مکمل حق بجانب ہوتی ہے اور اسی حق کو استعمال کرکے حملہ آوروں کو منتشر کرنے کیلئے سکیورٹی ادارے کو فائرنگ بھی کرنا پڑی جبکہ ایم این اے علی وزیر کے بعد اب ایم این اے محسن داوڑ کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے اور اس حکومتی اقدام پر عوام کی جانب سے اسی لئے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا کہ یہ عناصر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھے اور پاکستان اور اسکی محافظ افواج پاکستان کیخلاف منافرت کی فضا پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ مگر ایسا ہی ریاستی اقدام پرامن طریقے سے احتجاج کرنیوالے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کیخلاف اٹھایا جائیگا تو اس پر حکومت کو یقیناً سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں تو حکومت کو اپوزیشن کی آواز دبانے کیلئے ریاستی مشینری استعمال کرنے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں بے قابو ہونیوالی مہنگائی سے عوام پہلے ہی مضطرب ہیں اور سڑکوں پر آکر اپنے سخت ردعمل کے اظہار کے موقع کی تلاش میں ہیں جبکہ عوام کے اس اضطراب سے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنی سیاست چمکانے کا نادر موقع ملتا نظر آرہا ہے جنہوں نے بلاول بھٹو کی افطار پارٹی میں ایک متحدہ اپوزیشن کی صورت میں حکومت کیخلاف عیدالفطر کے بعد طوفان اٹھانے کا واضح عندیہ بھی دے دیا ہے۔ حکومت کو ابھی اپنے پہلے بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافہ کی صورت میں بھی ممکنہ طور پر سخت عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اگر بجٹ سے پہلے حکومت اپنے اقدامات سے سیاسی ماحول میں بھی تلخی اور کشیدگی کی فضا پروان چڑھائے گی تو یہ صورتحال اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کیلئے دو آتشہ ہوسکتی ہے۔ اس تناظر میں خود وزیراعظم عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ انکے جو مشیر انہیں اپوزیشن کو ریاستی طاقت کے زور پر دبانے کے مشورے دے رہے ہیں‘ وہ انکی حکومت اور پارٹی کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔ انہیں سلطانیٔ جمہور والی سیاسی جمہوری اقدار کی بہرصورت پاسداری کرنی چاہیے اور ایسے حالات نہیں پیدا ہونے دینے چاہئیں کہ طالع آزمائوں کیلئے جمہوریت کی بساط الٹانے کا پھر موقع نکل آئے۔

مزیدخبریں