ادریس بختیار بھائی سے کب اور کیسے شناسائی ہوئی؟ شاید ذہن پر بہت زور دے کے بھی یاد نہ آ سکے اس لیے میں اس تعلق کو اپنی صحافتی عمر سے جوڑتا ہوں۔ ہماری نسل کے لوگوں نے جب قلم پکڑنا سیکھا، اس قلم رو میں ان کا سکہ رواں تھا، کچھ ایسا کہ بر عظیم ہند کے مسلمان شہنشاہوں کی یاد آتی ہے۔ ہمارے اس دیار کے بادشاہ اپنے زور بازو سے سلطنت بناتے، سخت محنت کر کے اسکا ناک نقشہ سجاتے اور اسے مقامی ماحول سے ہم آہنگ کر کے مسلم تہذیب میں ایک نئے رنگ کا اضافہ کرتے۔ یہی پیمانے ہوتے جن سے قرون وسطیٰ میں کسی سلطنت کا وقار و اعتبار قائم ہوتا مگر اس عہد کے بادشاہ اس پر مطمئن نہ ہوتے، اپنے اقتدار کی سند کیلئے سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سے درخواست گذار ہوتے اور جب تک خلیفہ سے انھیں خلعت فاخرہ عطا نہ ہو جاتی، اپنے نام کا سکہ جاری نہ کرتے۔ کراچی کی صحافتی روایت میں ادریس بھائی کا مقام بھی ایسا ہی تھا۔ لوگ اس میدان میں آتے، سخت محنت کرکے مقام بناتے لیکن اسکے باوجود ادریس بھائی کی نگاہوں میں آنے اور ان کا اعتبار حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے۔ یوں کہہ لیجئے کہ ادریس بھائی اس شعبے کی پی ایم ڈی سی تھے جس کی اجازت کے بغیر ڈاکٹر کو پریکٹس کی اجازت نہیں مل سکتی۔ ادریس بھائی اس مقام تک کیسے پہنچے؟ یہ سمجھنا مشکل تو نہیں مگریہ قصہ ذرا طولانی ہے۔
کراچی کو عروس البلاد، منی پاکستان اور برصغیر ماتھے کا جھومر قرار دیا جاتا ہے مگر جدید کراچی کیا ہے؟ شاید اسکے عنوان کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ بس، اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ سخت جان شہر کم از کم تین دہائی سے خاک اور میں غلطاں ہے جب یہ شہر اس قلزم خوں سے نکل کر زمیں پر ایک بار پھر قدم جمائے گا، اس کی پیشانی پر ایک نیا عنوان رقم ہوگا۔ ادریس بھائی اسی عہدِ اضطراب کے ایک بہادر سپاہی تھے۔
تین دہائی کے تذکرے سے ادریس بھائی کی صحافتی عمر کا تعین کرنا غلطی ہوگی لیکن اسکا ذکر یوں ضروری ہے کہ اس عرصے کے دوران میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر پر جو بیتی، اس کا تذکرہ کیے بغیر بات مکمل ہوسکتی ہے اور نہ ان دکھوں کے تذکرے سے لبریز کہانی کہی جاسکتی ہے جس کا مرکزی کردار وہ لوگ تھے جنھوں نے قلم و قرطاس کا محاذ سنبھالا اور پورے جذبے کے ساتھ وہ سب کچھ رقم کرنے کی کوشش کی جو اس شہر پر بیت رہی تھی۔ اس عہد کا تذکرہ کرتے ہوئے شہید محمد صلاح الدین کا ذکر لازم ہے جنہوں نے جبر کی اس آندھی میں اٹھارہ برس تک قلم کو عَلم بنائے رکھا اور بالآخر اس معرکے میں قربان ہوئے لیکن یہ کہانی مکمل ہو نہیں سکتی اگر اس میں ادریس بھائی جیسے مجاہدوں کی جدو جہد کو شامل نہ کیاجائے۔ شہیدوں کے مقام و مرتبے کا میں قائل ہوں مگر وہ جو آزمائش میں پیچھے رہ جاتے ہیں، جی داری میں شاید بڑھ کر ہوتے ہیں کیونکہ انھیں بہت سی قربانیاں اپنے ہاتھوں سے دینی پڑتی ہیں اورپے درپے صدمے اپنے سینے پر سہنے پڑتے ہیں۔ برادرم سبط عارف کو 80اور 90کی دہائی کی وہ آواز یاد ہے جو جلتے ہوئے کراچی میں بی بی سی سے گونجی۔ اس عہد میں کراچی کے سینے پر لگنے والے کتنے ہی زخم زمانے کے علم میں نہ آتے اگر وہ آواز نہ گونجتی مگر ایسی آوازوں کا بھی ایک المیہ ہے۔ لوگوں کو وہ سنائی تو دیتی ہیں مگر انکے پردے میں چھپی ہوئی وہ داستان الم دکھائی نہیں دیتی جو اس سچ کی قیمت کے طور پر کسی پر بیت جاتی ہے۔ انسان کی زندگی میں جان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے مگر ایک وقت آتا ہے جب وہ بخوشی اس کی قربانی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اسکے مقابلے میں اولاد کی جان اور آبرو کی حفاظت کا معاملہ اس سے کڑا ہوتا ہے۔ ادریس بھائی اس آزمائش سے بھی گزرے جب نام نہاد دہشت گردوں کی تلاش کے بہانے پولیس ان کے گھر پر چڑھ دوڑی ، یوں چادر اور چار دیوراری کا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا ۔اس افتاد میں انھوں نے اپنے بچوں کو بھی حتی الامکان کسی گزند سے بچایا اور اپنی صحافت کو بھی۔
ٹیلی ویژن صحافت اور اینکر کریسی کے دور میں ایک جملہ زبان زد عام ہوا،’ جو دِکھتاہے، وہ بکتا ہے‘۔ اگر یہ اصول ہے تو اس اصول کی صلیب پر سچ کی لٹکی ہوئی لاش ان دنوں ہم نے بارہا دیکھی ہے مگر ایک زمانہ اس سے بھی زیادہ سخت تھا۔ اس زمانے میں کراچی سے زیادہ سے زیادہ لاشوں کی رپورٹ بنانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ یہ دوڑ مقامی ذرائع ابلاغ میں بھی لگتی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی۔ اسی زمانے میں ایک بار کراچی میں بیس پچیس ہلاکتوں کی خبر عام ہوئی۔ ان ہلاکتوں کے پس پشت نہ دہشت گردی تھی اور نہ کوئی سیاسی جھگڑا۔ کچھ انفرادی واقعات تھے جیسے کوئی شخص کسی حادثے کا شکار ہوگیا، کسی نے وقت آنے پر اسپتال میں جان دیدی اور کوئی کسی مقامی یا نجی جھگڑے کے باعث جان سے گیا۔ ادریس بھائی ان دنوں جس بین الاقوامی ادارے میں کام کرتے تھے، شائد اس کا ذمے دار کوئی بھارتی تھا جو اس خبر کی شہ سرخی بنا کر پاکستان کیخلاف فضا بنانا چاہتا تھا۔ ادریس بھائی ڈٹ گئے اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ اس درجے کی خبر نہیں جیسی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، چنانچہ انھوں نے ملازمت داؤ پر لگا کر اپنے ملک کیخلاف مہم میں شریک ہونے سے انکار کردیا۔
ناصر بھائی (ناصر بیگ چغتائی) نے (اپنی پوسٹ میں )ادریس بھائی کی نظریاتی جہت کا ذکر کیا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستانی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی جو تقسیم ہوئی ،اس میں ادریس بھائی کا رجحان سیدھے ہاتھ کی طرف تھا لیکن اس میںبھی ہمارے سماج اور خاص طور پر صحافت میں سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ظفر عباس( ڈان کے موجودہ ایڈیٹر) کے ساتھ انکی دوستی مثال کی حیثیت رکھتی ہے، ظفر صاحب کا نظریاتی میلان دوسری طرف تھا لیکن اس دیرینہ رشتے میں ہم نے دیکھا ہے کہ نظریاتی معاملات اس پر کبھی اثر انداز نہ ہوسکے، نہ ذاتی سطح پر اور نہ پیشہ ورانہ سطح پر۔ برادرم آفتاب اقبال کہتے ہیں کہ وہ اسم بامسمیٰ تھے، یعنی انھوں نے لوگوں کو قلم پکڑنا سکھایا،اگر یہ بات انھوں نے اس پس منظر میں کہی ہے تو میں اسکی تائید کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ ہمارا بھائی رفعت سعید اس داستان کو مکمل کریگا جو سفر و حضر میں انکا ساتھی رہا ہے۔یہ ہمارے پیشے کا المیہ ہے کہ ایسے لوگ جو خیابانِ صحافت کو تاعمراپنے خون جگر سے سینچتے ہیں،آخری عمر میں بھی چین کی زندگی نہیں جی پاتے، بے روزگاری اور برطرفی کے عفریت انکے سرپر بھی منڈلاتے ہیں اور وہ ان ہی دکھوں کو سینے سے لگائے اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔اللہ ان آئندہ کا سفر آسان فرمائے اور اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔