یہ تحریر حکومت کے لیے پندنامہ نہیں بلکہ کروڑوں ہم وطنوں کی طرح وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے طالب کی آرزو ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہ بھی جان لیں کہ بھارت 92 کی دلدل سے کیسے نکلا؟ بتایا گیا کہ وزیر اعظم نرسیما رائو نے 46 ویں یوم آزادی کی تقریروں میں اہل وطن کومشورہ دیا کہ نزاعی اُمور کو تین سال کے لیے التوا میں ڈال دیں‘‘ چنانچہ ہند کے اہل سیاست نے اس پر عمل کیا۔
آج کا بھارت کہاں کھڑا ہے ہم سب حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ’’ہم آزادی کے 70 سال بعد بھی گھمبیر مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے یکسوئی کی ضرورت ہے۔ انسان بیک وقت دو محاذوں پر اپنی قوت صرف نہیں کر سکتا۔ اگر وہ نزاع میں اُلجھے گا تو تعمیری کام رُک جائیں گے اور اگر تعمیری کاموں میں مصروف ہو گا تو نزاع کے میدان کو خالی چھوڑنا پڑے گا‘‘ سب سے پہلے تو اپوزیشن کو مشتعل کرنا ترک کر دیں۔ کچھ عرصہ کے لیے ، نیب کو بھی رخصت پر بھیج دیں۔ لوٹے ہوئے مال کی وصولی کا عزم بھی معرضِ التوا میں ڈال دیں، اس وقت قومی ہم آہنگی اور یکجہتی ہر قسم کے مال و منال سے زیادہ اہم ہے اور اگر یہ حاصل ہو گئی تو کھربوں روپے سے زیادہ فائدہ دے گی۔ حکمرانوں کو اقتدار میں آتے ہی لبوں پر مہر لگا کر اور زبانوں کو بند کر کے اپنے اپنے کاموں پر توجہ دینی چاہئے تھی۔ ہم نے کسی عمارت کے معماروں کو نہیں دیکھا کہ وہ کام چھوڑ کر راہگیروں سے اُلجھ رہے ہوں۔ اس طرح کام نہیں ہوتے۔ اپوزیشن سے معاملات میں شائستگی لائیں۔ حریفوں کو بھی جینے کاحق دیں، عزت کریں اور عزت کرائیں۔ ہر انسان کی عزت نفس ہے خواہ وہ اعمال کے لحاظ سے کسی بھی درجے پر ہو۔ برے کو سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن اسے ذلیل و خوار کرنا کدورتوں کو جنم دیتا ہے۔
حکومت کو اس وقت پوری قوم کی اجتماعی خیر خواہی کی ضرورت ہے اور یہ صرف اس صورت مل سکتی ہے کہ حزب اختلاف کی ہر بات ہر طعنے اور ہر الزام کا جواب دینا لازم نہ سمجھ لیا جائے۔ بھٹو مرحوم کو انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی، ان کے مقابلے میں بڑے بڑے لیڈر بھی نہ ٹھہر سکے۔ لیکن پھر بھی اُنہیں صرف 32 یا 33 فیصد ووٹ پڑے تھے۔ بھارت میں مودی دوبارہ آ گیا ہے اور اسے مہاتما گاندھی کی طرز پر مہاتما مودی بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہماری طرف بھی کوئی ایسا لیڈر ہوتا جو قائد اعظم نہ سہی قائد اعلیٰ ہی کہلائے جانے کا مستحق قرار پاتا۔ عمران خان میں ایسی صلاحیتیں ہیں کہ وہ تاریخی لیڈر کی حیثیت اختیار کر جائیں مگر اس منصب کو پانے کے لیے نفس کشی کی ضرورت ہے۔ کیا وہ یہ قیمت ادا کر پائیں گے۔ ؟
آخر میں ایک کہانی جس کا بظاہر کالم سے کوئی تعلق نہیں لیکن اتنی بھی غیر متعلق نہیں۔ :
وسطی پنجاب کے دیہات میں چوپال کو ’’دارا‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ دراصل عربی لفظ دارالندوہ (مشورہ گاہ) کا محفف ہے۔
کہانی کچھ اس طرح سے ہے:۔
دارے میں حسب معمول خوش گپیاں چل رہی تھیں، گھومنے والے حقے کے کش پر کش لگ رہے تھے کہ گائوں کی طرف سے ایک آدمی آیا اور تمسخرانہ لہجے میں جس میں شریکے کی بو آ رہی تھی۔ ایک معزز شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا چودھری ! تیری بیٹی، فلاں کے بیٹے کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ بات سنتے ہی سناٹا چھا گیا۔ چودھری نے بڑے تحمل سے بات سُنی ، نیم دلی سے اُٹھا۔ پگڑی سر پر رکھنے کی بجائے گلے میں ڈال لی، گھر پہنچا تو بیٹی بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔ بیٹی نے تعظیماً کھڑے ہو کر باپ کو سلام کیا اور اُسے ننگے سر دیکھ کر گہری تشویش میں ڈوب گئی۔ پوچھا ابو خیر تو ہے۔ چودھری بولا، بیٹی مجھے تمہاری پاکدامنی پر کبھی شک نہیں ہوا۔ لیکن اب تُو گھر میں بیٹھی رہے یا ’’اُدھل‘‘ جا۔ اب میں کس کس کو بتائوں گا کہ جنتے گھر میںہی ہے۔ (ختم شد)