رُوز ویلٹ کے پیچھے کون پڑا ہے؟

May 31, 2020

جاوید صدیق

نیو یارک کے سب سے قیمتی علاقہ مین ہٹن میں ایک ہوٹل رُوز ویلٹ ہے، یہ ہوٹل فورٹی ففتھ (پینتالیسویں) سٹریٹ پر واقع ہے۔ رُوز ویلٹ کا شمار نیو یارک کے لگژری ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ اس ہوٹل کا نام امریکہ کے مشہور صدر تھیوڈور رُوز ویلٹ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ہوٹل کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہوٹل 1924 میں تعمیر ہوا تھا، اسی سال اسے مہمانوں کیلئے کھول دیا گیا۔ 1943 میں ہوٹل کو ایک کمپنی کونرڈ ہلٹن نے خرید لیا۔ اس ہوٹل کے بارے میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ 1947 میں یہ ہوٹل نیویارک کے ان ہوٹلوں میں شمار ہونے لگا جنھوں نے ہر کمرے میں اپنے مہمانوں کو ٹیلی ویژن کی سہولت فراہم کر رکھی تھی۔
1979 میں رُوز ویلٹ پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز ( پی آئی اے) نے لیز پر حاصل کر لیا۔ یہ وہ دور تھا جب پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہوتا تھا۔ باکمال لوگ، لاجواب پرواز کا سلوگن پی آئی اے جو جچتا تھا۔ اس زمانے میں اور اس سے پہلے تک پی آئی اے پاکستان کا ایک قابل فخر ادارہ تھا۔ 1979 میں پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ تھا، اس کے ذیلی ادارے پی آئی اے انوسٹمنٹ نے یہ ہوٹل کئی ملین ڈالر دے کر لیز پر لیا۔ نیو یارک کے وسط میں انتہائی قیمتی جگہ پر ایک لگژری ہوٹل حاصل کر لیا گیا۔ لیز کی ایک شق یہ تھی کہ بیس سال کے بعد پی آئی اے یہ ہوٹل خرید سکتی ہے، دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1979 میں جب رُوز ویلٹ ہوٹل لیز پر لیا گیا اس وقت سعودی شاہی خاندان کے ایک رکن پرنس فیصل بن خالد السعود نے بھی اس ہوٹل میں سرمایہ کاری کی۔ 1999 میں پی آئی اے نے ہوٹل خریدنے کا اپنا قانونی حق استعمال کیا۔ پی آئی اے نے اس ہوٹل کو چھتیس ملین ڈالر کی رقم سے خرید لیا۔ اس خاکسار کو اس ہوٹل میں ٹھہرنے کا کئی بار موقع ملا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کی کوریج، سابق وزرائے اعظم نواز شریف بے نظیر بھٹو، صدر جنرل پرویز مشرف اور دوسرے سربراہانِ مملکت کے سرکاری دوروں کی کوریج کیلئے ہوٹل رُوز ویلٹ میں ٹھہرنے کا موقع ملتا رہا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی دعوت پر امریکہ میں قیام کے دوران بھی اس ہوٹل میں قیام کا موقع ملا۔ اس ہوٹل سے متعلق سب سے اچھی بات مجھے یہ لگی کہ نیو یارک کے عین وسط میں اس ہوٹل کی چھت پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہر وقت لہراتا ہے۔
نائن الیون کے واقعہ میں بھی، جس میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر تباہ ہوا، رُوز ویلٹ پر پاکستانی پرچم لہراتا رہا۔ میرے خیال میں اس بلڈنگ پر پاکستان کے قومی پرچم کے ہر وقت لہرانے کی ہی کوئی قیمت نہیں۔ اقوام متحدہ کی عمارت اس ہوٹل سے صرف 10 منٹ کی مسافت پر ہے۔
اس ہوٹل کو جو پی آئی اے کا ایک اثاثہ ہے، اور اس پر 2007 میں پی آئی اے نے کئی ملین ڈالر خرچ کر کے اسے اپ گریڈ کیا یعنی اسی تزئین و آرائش کیا، اسے بعد میں فروخت کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب یہ کہا جانے لگا کہ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز اس ہوٹل کو بیچنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک عرصے تک یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ رُوز ویلٹ ہوٹل بکنے والا ہے۔ راقم دوسرے اخبار نویسوں کے ساتھ صدر جنرل پرویز مشرف کے دورہ امریکہ میں اسی ہوٹل میں قیام پذیر رہا۔ صدر جنرل پرویز مشرف بھی رُوز ویلٹ کے ایک صدارتی ’’سوٹ‘‘ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ انھوں نے پاکستانی میڈیا کو بات چیت کیلئے اپنے سوٹ میں بلایا اور مختلف موضوعات پر میڈیا سے بات چیت کی۔ اسی دوران ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ درست ہے کہ کچھ لوگ کمیشن کھانے کے چکر میں یہ ہوٹل بیچنا چاہتے ہیں، تو صدر جنرل پرویز مشرف نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا البتہ انھوں نے کہا کہ میرے ہوتے ہوئے اس ہوٹل کو کوئی نہیں بیچ سکتا۔ وہ دور گزر گیا۔ پچھلے دس بارہ سال میں رُوز ویلٹ ہوٹل کو بیچنے کی کوئی کوششیں ہو چکیں، ایک لابی یہ دلیل دیتی ہے کہ قومی ایئرلائن کا کام ہوٹل چلانا نہیں ہے، حالانکہ یہ ہوٹل پی آئی اے خود نہیں چلا رہی بلکہ اسے آگے ماہرین کی انتظامیہ چلا رہی ہے جو کہ سالانہ پی آئی اے کو خاصی رقم دیتی ہے۔ پی آئی اے کئی سالوں سے خسارے میں جا رہا ہے، اس خسارے کی وجہ رُوز ویلٹ ہوٹل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ بد انتظامی، بد عنوانی، میرٹ کو دیوار کے ساتھ لگانا اور بہت سی دوسری قباحتیں ہیں جو کہ پاکستان کے قومی اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔ اس ہوٹل کو بیچنے سے کیا پی آئی اے کو قارون کا خزانہ مل جائے گا؟ جس سے وہ اپنے تمام مالی مشکلات پر قابو پا لے گا؟ ایک مرتبہ پھر رُوز ویلٹ ہوٹل کو بیچنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اس ہوٹل کی فروخت کیلئے لابنگ ہو رہی ہے، پی آئی اے کے چیئرمین نے انھیں اور ہوابازی کو اعتماد میں لئے بغیر نجکاری کمیشن کو ہوٹل رُوز ویلٹ بیچنے کی سمری ارسال کی ہے، وزیر ہوا بازی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ہوٹل کی فروخت پر اعتراض اٹھایا ہے کیونکہ جس انداز میں اسے بیچنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ قانون کے مطابق نہیں۔ یہ ہوٹل پی آئی اے کی ایک بڑی ٹھوس انوسٹمنٹ ہے جسے بیچ کر اس سے حاصل ہونیوالی رقم اڑا دی جائیگی اور یہ اہم اثاثہ اس کے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیر ہوابازی غلام سرور خان ہوٹل رُوز ویلٹ کو بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔

مزیدخبریں