ٓٓٓٓٓٓملکی سیاست میں آئین ’’18ویں ترمیم‘‘ میں مزید ترامیم کی بات چل ہی رہی تھی کہ اقتدار کے ایوانوں میں ’’ نیب قانون‘‘ میں ترامیم کی ایک بار پھر باز گشت سنی گئی ۔ابھی ان دو معاملات پر کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تھی کہ اس دوران حکومت نے ’’ انتخابی اصلاحات ‘‘سے متعلق بل کا مسودہ ’’ بازار سیاست‘‘ کے لئے ایک نیا موضوع دے دیا ہے۔ بظاہر حکومت نے انتخابی اصلاحات کا جو بیڑہ اٹھایا ہے اس کی بیشتر شقوں سے تمام سیاسی جماعتوں میں بھی عمومی اتفاق رائے کا اظہار کیا جائے گا لیکن حکومت نے جس’’ تیز رفتاری ‘‘ اور’’ عجلت ‘‘ سے اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیرانتخابی اصلاحات کے مسودہ کا اعلان کر دیا ہے‘ اس سے انتخابی اصلاحات کے بارے میں اپوزیشن کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ حکومت دبی دبی زبان میں آئین میں 18ویں ترمیم کے نقائص کا تذکرہ کر رہی ہے لیکن اس معاملہ پر تاحال سلسلہ جنبانی شروع نہیں کیا۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو آئین میں 18ویں ترمیم کے نقائص دور کرنے کے بارے حکومت کو 26ویں آئینی ترمیم لانے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر حکومت اس بارے میں سنجیدہ ہے تو آئینی ترمیم پر پارلیمانی کمیٹی قائم کر دے اور اتفاق رائے سے آئینی ترمیم منظور کرالے تو اپوزیشن ’’مزاحم ‘‘ نہیں ہو گی لیکن پیکیج ڈیل نہیں ہو گی۔ اسی طرح حکومت نے نیب قانون کو دور حاضر کے تقاضوں میں ڈھالنے اور اسکے نقائص دور کیلئے اپوزیشن کے رہنمائوں سے غیر رسمی بات چیت کی تھی لیکن دو ماہ قبل اپوزیشن سے مسودہ قانون لے کر وزارت قانون کی ’’الماری ‘‘ میں بند کر دیا۔ گذشتہ ہفتے وفاقی کابینہ نے انتخابی اصلاحات کا مسودہ قانون منظور کرکے پبلک کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اس مسودہ قانون کی تیاری میں اس وقت کے پارلیمانی امور کے وزیر جناب اعظم سواتی کی خاصی محنت شامل ہے ان کو اس بات کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مختصر عرصہ میں انتخابی اصلاحات تیار کر لیں یہ سارا کام حکومتی سطح پر کمیٹی نے کیا جس میں اپوزیشن کی سرے سے ’’ان پٹ ‘‘ شامل نہیں۔ حکومت نے یہ جانتے ہوئے کہ اس کے پاس ایوان بالا میں اکثریت نہیں وہ اپوزیشن کی آشیر باد کے بغیر ایوان بالا سے کوئی بل منظور نہیں کروا سکتی۔ اسے ’’ آن بورڈ‘‘ لائے بغیر کوئی ’’پولیٹیکل ایڈونچر‘‘ نہیں کر سکتی۔ اسے کم از کم ایک سال تک ایوان بالا میں اپوزیشن کے ’’ناز نخرے‘‘ اٹھانا پڑیں گے۔ ویسے بھی پارلیمانی نظام میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی کی صورت میں قانون سازی کا عمل تیز رفتاری سے مکمل ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’جنگ و جدل‘‘ کے ماحول کے باعث قانون سازی کا عمل رک ہی گیا ہے۔ دونوں ایوانوں کی مجالس قائمہ میں مسودہ ہائے قانون ’’منجمد‘‘ پڑے ہیں چونکہ موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شروع دن سے ’لڑائی جھگڑے‘‘ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے 10سال دور کے دوران دونوں جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کی وجہ سے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی روح کے مطابق نہ صرف آئینی ترامیم پر اتفاق رائے ہوا بلکہ تیز رفتاری سے ریکارڈ قانون سازی کی گئی۔ 18ویںترمیم سے لے کر25 ویں ترمیم تک اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ پاکستان میں پہلی بار الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کے لئے اقدات کئے گئے، جب کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت اور پارلیمنٹ کی منظوری کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ اب بھی ملک میں آئین کا مسلسل جائزہ لینے کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ضروری ہے، جس میں تمام چھوٹی بڑی پارلیمانی جماعتوں کو نمائندگی دی جائے۔ اس پارلیمانی کمیٹی میں جن آئینی ترامیم پر اتفا ق رائے ہو، اسے پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے لایا جائے۔
سردست تحریک انصاف ایوان بالا میں اقلیتی جماعت ہے جب کہ ایوان زیریں میں بھی اسے معمولی اکثریت حاصل ہے۔ لہٰذا اسے آئین میں ترمیم اور قانون سازی کے لئے اپوزیشن کا تعاون درکار ہو گا ۔ اعظم سواتی نے انتخابی اصلاحات کے لئے 39 تجاویز پیش کی ہیں جن میں اوورسیز پاکستانیز کو ووٹ کا حق دینے اور 2023 کے انتخابات میں مکمل طور پر بائیومیٹرک سسٹم کے مطابق منعقد کرانے اور سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لئے وزیر اعظم کے انتخاب کی طرز پر اوپن بیلٹ کے ذریعے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کی تجاویز شامل ہیں۔ ان تجاویز سے اپوزیشن بھی یقیناً اتفاق کریگی لیکن حکومت اپوزیشن کی ’’مہر تصدیق‘‘ ثبت کرا کر انتخابی اصلاحات کا اعلان کرتی تو اسکے اچھے کام کی ایوان بالا سے باآسانی منظوری ہو جاتی۔ تمام اوورسیز پاکستانیز کو الیکٹرانک سسٹم کے تحت ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کے بعد ان کو فول پروف ’’سیکریسی‘‘ بنانا بھی ضروری ہے۔ مجوزہ بل کے تحت آئندہ گلگت و بلتستان کے انتخابات میں اوور سیز پاکستانیزکو اپنا حق رائے دہی دیا جائیگا۔ بائیو میٹرک کا پہلا تجربہ 3 ماہ بعد گلگت بلتستان کے انتخابات میں کیا جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کی حکومت کو ’’آن بورڈ‘‘ لیا ہے یا نہیں ؟ مجوزہ بل کے مطابق پولنگ اسٹیشن کا انتخابی نتیجہ 24 یا 48 گھنٹے کے بجائے فوری بھیجنا لازمی قرار دیا جائے گا، پریذائیڈنگ افسر گنتی مکمل ہونے کے فوری بعد رزلٹ بھیجنے کا پابند ہوگا ، خلاف ورزی کرنے پر پریذائڈنگ آفیسر کو 3 سال قید ہوسکے گی۔ چیف الیکشن کمشنر کو انتظامی اختیارات دئیے جائیں وہ شفاف انتخابات کے انعقاد کی راہ میں حائل ہونیوالوں کو قرار واقعی سزا دے سکے۔ سینیٹ انتخابات میں شو آف ہینڈ سے چیئرمین کے انتخاب سے ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ کیلئے دفن ہو جائیگی۔
اعظم سواتی نے 2017ء کے انتخابی ایکٹ کو زبردست قانون قرار دیا ہے لیکن اس میں لکھا ہوا ہے کہ الیکشن پلان انتخابات سے چار ماہ قبل پروپوز ہو گا۔ حالانکہ اسے چار ماہ قبل حتمی شکل دی جانی چاہیے اور ہم نے اس میں یہی تبدیلی کی ہے جبکہ حلقوں کی حد بندی چار ماہ قبل ختم ہو جانی چاہیے۔ خواتین اور اقلیتوں کی فہرست انتخابات سے پہلے دی جاتی تھی اور اس میں ایک بڑا خلا یہ تھا کہ اس فہرست میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اب تبدیلی کی جا سکے گی ۔بہر حال حکومت نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ کا اعلان کر دیا ہے لیکن اسے پارلیمان میں پیش کرنے سے قبل تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لئے اقدامات کئے جائیں تاکہ حکومت جو اچھا کام کرنا چاہتی ہے وہ خوش اسلوبی سے ہو جائے تو آئین میں اب تک کی جانے والی متفقہ ترامیم کی طرح اس قانون کو منظور کرنے کا کریڈٹ بھی کسی فرد واحد کی بجائے پارلیمان کو حاصل ہو گا ورنہ انتخابی اصلاحات کا ’’بھار ی پتھر ‘‘ چوم کر رکھ دیا جائے گا ۔
ٓٓٓٓانتخابی اصلاحات کا ’’بھاری پتھر‘‘
May 31, 2020