تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
دھائیوں سے پاکستان میں مافیاز وطن عزیز کے نظام کو اپنے پنجوں میں اس مضبوطی سے جکڑے ہوئے ہیں کہ لاکھ کوششیں بے سود ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور حکومتیں ان مافیاز کے سامنے لڑکھڑاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ایف بی آر کی شوگر انڈسٹری سے وصول کیے جانے والا جنرل سیلز ٹیکس کے اعدادوشمار چشم کشا اور مافیا کو بے نقاب کرنے اور ان کی کرپشن کی داستان عام کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ اعدادوشمار شمار شوگر مافیا کی کرپشن کا راز افشا کرتے ہوئے قوم کو ببانگ دہل بتا رہے ہیں کہ شوگر مافیا کتنے لمبے عرصے سے ملک کو لوٹ رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایف بی آر، اداروں اور حکومت کو اس شوگر مافیا کو نکیل ڈالنے کے لیے کتنے اور واضح ثبوت درکار ہوں گے ؟ اور اس غریب عوام کو جو ایک ایک نوالے کو ترستی ہے کیسے ہنر مندی سے شوگر مافیا ان کے حصے کا رزق چھینتی ہیں۔ یہی مسائل اور ایسے ہی مافیاز سیمنٹ اور فرٹیلائزر انڈسٹری میں ہیں۔ اور صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی ہے اور یہ مافیاز اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ ان کے مقابلے میں ادارے اور حکومت کمزور ہیں۔ آج جو اعداد وشمار آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں یہ ان مافیاز کو بے نقاب کرتے نظر آئیں گے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے شوگر ڈیلرزکی سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کئے جانے سے رواں سال چینی کی بے نامی ٹرانزیکشنز (لین دین) میں کمی کے باعث چینی پر سیلز ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایف بی آر کے رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے اعداوشمار کے مطابق چینی کی مقامی فروخت سے 29ارب 66 کروڑ 10لاکھ روپے کے جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی ہوئی جو گذشتہ مالی سال میں اتنی مدت کے دوران وصول کئے جانے والے 16ارب 49 کروڑ روپے کے جنرل سیلز ٹیکس کے مقابلے میں 79.9 فیصد زائد ہے اور کل ٹیکس وصولی کا 5.7فیصد ہے۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ شوگر ڈیلرز کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن سے چینی کی مقامی فروخت پر جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کے 2019 میں چینی پر سیلز ٹیکس 8فیصد سے بڑھا کر17 فیصد کر دیا گیا تھا۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں مالی سال پنجاب میں اس سال تقریباً37 لاکھ ٹن جبکہ ملکی سطح پر 56سے 57لاکھ ٹن چینی کی پیداوار کا اندازہ ہے۔ جبکہ امریکہ کے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق اس 2021 میں پاکستان میں چینی کی 59.90لاکھ ٹن پیداوار ہوئی ہے۔ اگر شوگر ڈیلرز کی 100فیصد سیلز ٹیکس رجسٹریشن ہو جائے تو حکومت کو ملک میں چینی کی پیداوار کے کافی حد تک صحیح اعدادوشمار مل سکتے ہیں اور چینی کی مقامی فروخت جی ایس ٹی میں مزید اضافہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سال چینی کی پیداوار کے اعدادوشمار کے بارے میں الجھاؤ پیدا ہونے کے حوالے سے شوگر انڈسٹری کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ صرف گنے کی پیداوار کے مقابلے میں چینی کی کم پیداوار ظاہر کی گئی بلکہ شوگر ریکوری کو بھی کم رپورٹ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی کی لاگت کو زیادہ شمار کرنے کیلئے گنے کی زائد قیمت کا جواز بھی شوگر انڈسٹری کی طرف سے اٹھایا گیا ہے۔ شوگر ملوں کے مطابق اس سال کسانوں سے 375 سے 380ارب روپے کا گنا خریدا ہے۔ پنجاب شوگر ملز ایسوسی ایشن (پنجاب زون )کے ایک ذمہ دار عہدیدارکے مطابق شوگر ملز نے 300 روپے فی من گنا خریدا ہے۔ جبکہ کین کمشنر آفس کے ذرائع نے کہا ہے کہ شوگر ملز کا یہ دعوی سراسر غلط ہے کہ گنے کی اوسط قیمت 300 روپے فی من رہی ہے۔ شوگر ملیں کین کمشنر آفس کو رپورٹس مہیا کرتی ہیں جن میں گنے کے قیمت خرید بھی درج ہوتی ہے۔ ملز کی اپنی مہیا کردہ اور دستخط شدہ رپورٹس کے مطابق گنے کی اوسط قیمت خرید اس سیزن میں 259 روپے رہی۔ علاوہ ازیں چینی کی قیمت کا ایک اور اہم عنصر گنے سے شوگر ریکوری کی مقدار ہے۔ شوگر ملز نے اس سال کی ریکوری 9.30 فیصد ظاہر کی ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ اس سال کین کمشنر آفس نے لیبارٹری صوبہ بھر کی ملز میں بھجوائی۔ اس لیبارٹری نے پورے سیزن میں ٹیسٹ کئے۔ اس سیزن کی اوسط ریکوری 10.41 فیصد رہی۔ اس لئے شوگر ملیں ایک کلو چینی 80 روپے فی کلو قیمت پر فروخت کریں تو انکو 15فیصد منافع ملتا ہے۔ لیکن اس وقت گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں چینی کی 13 فیصد سے زائد پیداوار کے باوجود صارفین کو ایک کلو چینی 110روپے سے 120روپے فی کلو کے حساب سے مل رہی ہے۔ اس کی تصدیق سرکاری اعدادوشمار کر رہے ہیں۔ حکومت کے ادارے نظامت زراعت (معاشیات وتجارت ) پنجاب کی زرعی اجناس کی اہم منڈیوں کے تھوک بھائو کی 28 مئی کی ریٹ لسٹ کے مطابق پنجاب کے 10بڑے شہروں کی تھوک منڈیوں میں ایک کلو سفید چینی کی اوسط قیمت 92.47روپے سے 93.06روپے رہی۔ واضح رہے کہ پرچون سطح پر صارفین کو ایک کلو چینی 110روپے سے 120روپے کلو مل رہی ہے۔ اس سے قبل لاہور کے چند بڑے سٹورز پر صارفین کو ایک کلو چینی 85 روپے میں مل رہی تھی لیکن اب وہاں بھی 100روپے یا اس سے زائد میں مل رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سیلز ٹیکس کی چوری روکنے اور چینی کی پیداوار کے درست اعداد و شمار جاننے کے لئے 3 فروری 2021 کو ملک کی شوگر ملوں میں 15 دنوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دیا تھا لیکن بیورو کریسی نے انکی یہ حکم بھی ہوا میں اڑا دیا اور ابھی تک اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اگر شوگر ملوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگ جاتے تو چینی کی صحیح پیداوار کے ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس چوری میں بھی بڑی حد تک کمی واقع ہونی تھی۔