اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اگر ملک اور عوام کے مفاد کے لئے اکٹھی ہوئی ہوتیں تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اب تک گر چکی ہوتی۔ یہ اپنی اپنی کرپشن کا پیسہ بچانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے باعث غریب کے مشکل حالات کی وجہ سے راتوں کو نیند نہیں آتی۔ طاقتور کو قانون کے نیچے لانے کے لئے پرعزم ہوں اور کمزور کو تحفظ فراہم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ شوگر مافیا حکومت گرانے اور مہنگائی کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے لیکن کسی سے زیادتی ہو گی نہ کسی کو رعایت ملے گی۔ کشمیریوں کے خون کی قیمت پر بھارت سے تجارت نہیں ہو سکتی۔ موجودہ صورتحال میں بھارت سے تعلقات کی بحالی کشمیریوں کے خون سے غداری ہو گی۔ معاشی اعشاریوں میں جوں جوں بہتری آ رہی ہے، اپوزیشن کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اتوار کو ’’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ ہے‘‘ پروگرام میں شہریوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آج معاشی ترقی کی شرح بڑھ رہی ہے، معاشی اعشاریئے بہتر ہو رہے ہیں۔ ایک شہری کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ مہنگائی کے باعث غریب عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ عمران خان نے کہا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، مقابلے اور جدوجہد میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے، حقیقت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو جتنی محنت کرتا ہے اتنا ہی ترقی کرتا ہے، ہمیں بے پناہ مسائل ورثے میں ملے تھے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ، قرضوں کا بوجھ اور دیگر مسائل نے پہلے دن سے گھیرا ہوا ہے، اس کا حل یہی ہے کہ ہم اپنے خرچے کم کریں، جب ملک ترقی کرے گا تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تقریباً 4 فیصد گروتھ ریٹ ہے جو مالی سال مکمل ہونے تک ساڑھے چار فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری دو بڑے مسائل کا سامنا ہے، جب ترقی کی شرح بڑھتی ہے تو یہ دونوں مسائل کم ہوتے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کہتی ہے کہ اگر این آر او نہیں دیں گے تو حکومت گرا دیں گے، اپوزیشن فوج کو کہتی ہے کہ منتخب حکومت کو گرا دو، ہم ان شاء اللہ اس مشکل وقت سے نکل جائیں گے۔ شہری محمد کلیم کے پلاٹ پر قبضے کی شکایت پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی میں کمیٹی بنائی ہے جو غیر قانونی سوسائٹیوں پر کام کر رہی ہے، ملک میں جتنی بھی غیر قانونی سوسائٹیاں ہیں ان کو ویب سائٹ پر ڈالیں گے، جو بن چکی ہیں ان کا بھی حل نکالیں گے۔ ایک سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اگر بھارت کے ساتھ تعلقات اچھے ہو جائیں تو اس میں ہمارا فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت کرنا کشمیریوں کے خون کے ساتھ غداری ہو گی، ہم کشمیریوں کے خون کی قیمت پر بھارت سے تعلقات بہتر نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم کا کہنا تھاکہ بھارت 5 اگست 2019 کا اقدام واپس لے تو بات چیت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین پر بھی اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہے، فلسطینیوں کو ڈرا کر مسئلہ ختم نہیں کیا جا سکتا، یہ ظلم کا نظام ہے۔ اس کا پائیدار حل یہی ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مغربی دنیا میں بھی فلسطینیوں کے مظالم کے حق میں آواز اٹھ رہی ہیں۔ سندھ سے شہری واحد چانڈیو نے کہا کہ سندھ میں طاقتور لوگ غریبوں کا خون چوس رہے ہیں، ہمیں نہری پانی نہیں مل رہا، تمام پانی سندھ کے وڈیرے استعمال کرتے ہیں۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پانی کا مسئلہ پورے ملک میں ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ماضی میں ڈیم بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت اگلے سال دس ڈیموں کی تعمیر شروع کر رہی ہے، پانی کے نئے ذخائر بنیں گے تو اس کے بعد ہی مسئلہ حل ہو گا، صوبوں کے اندر پانی کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہیئے، طاقتور اپنی زمینوں کے لئے پانی لے جاتا ہے جس کے نتیجے میں غریب کو پانی نہیں ملتا۔ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام کسانوں کو پانی کی یکساں فراہمی یقینی بنائے۔ ایک سوال پر عمران خان نے کہا کہ راولپنڈی رنگ روڑ کے حوالے سے مجھے اطلاع ملی تھی کہ ایک بہت بڑا فراڈ ہو رہا ہے، انکوائری میں یہ بات ثابت ہو گئی، اب تفصیلی تحقیقات اینٹی کرپشن کر رہی ہے اور جلد اس کی رپورٹ منظر عام پر آ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سائیکلوں کی دکان کا مالک دوبئی اور لندن میں پلازوں کا مالک بن چکا ہے، ہمارے لیڈر لندن میں وہاں رہتے ہیں جہاں برطانوی وزیراعظم بھی نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ساری اپوزیشن اس لئے اکٹھی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حکومت معاشی مشکلات سے نکل نہیں سکے گی، اب جب حکومت معاشی مشکلات سے نکل آئی ہے تو اب پھر یہ اکٹھے ہو کر حکومت کے خلاف احتجاج کریں گے کیونکہ اگر معیشت اٹھ گئی تو ان کا مستقبل بیٹھ جائے گا۔ عمران خان نے کہا کہ ہم نے قانون بنا دیا ہے اب شوگر ملز کسانوں کا پیسہ روک نہیں سکتیں، شوگر ملز نے کارٹیلز بنائے ہوئے تھے، ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو رہی ہے، اس سال ہماری فصلیں بھی بہت اچھی ہوئی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم کسانوں کی فصل کو براہ راست مارکیٹ تک پہنچائیں گے، اس کے لئے ہم 900 نئے کولڈ سٹوریج بنا رہے ہیں، ٹرانسپورٹیشن کو بہتر بنائیں گے۔ پنجاب میں چونکہ ابھی ہیلتھ کارڈ سسٹم نیا ہے اس لئے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر جگہ سرکاری ہسپتال بنا سکے، ہم نے نجی شعبے کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران چار ہزار ایک سو ارب روپے سے زائد کی ٹیکس وصولیاں ہوئی ہیں جو کہ ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ ہم نے لاک ڈائون سے غریبوں کو بھی بچایا ہے اور کاروبار کو بھی مکمل بند نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس وصولیوں کے سسٹم کو آٹومیشن نظام پر نہیں جانے دیا گیا کیونکہ اس سے کرپشن ختم ہو جائے گی اور بلیک مارکیٹنگ کا بھی خاتمہ ہو گا، جونہی آٹو میشن پر سسٹم چلا جائے گا تو ٹیکس کلیکشن میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔ ایک شہری کے سوال پر کہ ہم پولیس میں بہتری کا سن سن کر تھک گئے ہیں، حکومت کب تک ریفارمز کرے گی، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نیا ادارہ بنانا آسان ہے لیکن خراب ادارے کو ٹھیک کرنا بہت مشکل ہے، پنجاب پولیس 1986 سے لے کر 1992 کے دوران پیسے لے کر اور سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے 25 ہزار لوگوں کو خلاف میرٹ بھرتی کیا گیا جن میں سے بہت سے افراد پیشہ ور مجرم بھی شامل تھے، یعنی مجرم خود پولیس والے بن گئے جس کے بعد ان لوگوں سے پولیس مقابلے کروائے گئے، انہی لوگوں کے ذریعے قبضہ گروپوں کی پشت پناہی کی جاتی رہی، ن لیگ نے پنجاب پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا، ہم پولیس کو غیر سیاسی کر رہے ہیں۔ اگست تک پنجاب، خیبر پی کے اور اسلام آباد کا لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر رہے ہیں، قوم اسی وقت ترقی کرتی ہے جب ادارے میرٹ پر کام کرتے ہیں، مغرب میں جھوٹ بولنے پر عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں اخلاقی قدریں پامال کی جاتی ہیں، جن دو خاندانوں نے ماضی میں حکومت کی انہوں نے کتنا پیسہ کمایا، ان کا کردار سب کے سامنے ہے، ہم اداروں کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فوج جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو وہ اداروں کو کمزور کر کے اقتدار میں آتی ہے، عدلیہ کو کنٹرول کر کے ہی فوج حکومت میں آتی ہے، لیکن 1988 کے بعد جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں انہوں نے بھی اداروں کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور بنایا، پہلے اپنا پیسہ بنا کر اداروں کو کمزور کیا اور اب وہ پیسہ بچانے کے لئے ملک اور اداروں کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔ ایک بیوہ عائشہ نے کوئٹہ سے کال کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں مکان بنایا تھا جس پر قبضہ کر لیا گیا، میری والدہ خود بھی بیوہ ہے، اس نے ساٹھ سال کی ملازمت کے بعد یہ مکان بنایا لیکن کرایہ داروں نے گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا، میں ایک سال تک کوئٹہ سے لاہور تک خوار ہوتی رہی لیکن میری کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کمزور کو ہی انصاف کی ضرورت ہوتی ہے، طاقتور تو انصاف پیسے کے زور پر حاصل کر لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طاقتور مافیا ملک میں قانون کی حکمرانی دیکھنا نہیں چاہتا کیونکہ مافیاز اور قبضہ گروپ قانون کی بالادستی کے ماحول میں کام نہیں کر سکتے، میری جنگ ہی انصاف کے لئے ہے، انہوں نے کہا کہ شوگر مافیا حکومت گرانے کی دھمکیاں دیتا ہے، شوگر مافیا نے ایف آئی اے کو خط لکھ دیا ہے کہ اگر ہمارے خلاف کارروائی بند نہ کی گئی تو چینی مزید مہنگی کر دیں گے۔ انصاف کے نظام کے لئے کوشش کرتا رہوں گا، عدلیہ کے ساتھ بیٹھ کر اصلاحات کرنے کے لئے بھی تیار ہیں، جب عدلیہ مضبوط ہو گی تو کمزور کو بھی انصاف ملے گا لیکن جب آپ چیف جسٹس کو ڈنڈے سے نکال دیں گے تو پھر کمزور کو انصاف نہیں ملے گا۔ ہم نے اداروں میں مداخلت بند کر دی ہے۔ ہم طاقتور کو قانون کے نیچے لانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ غلط مقدمہ نہیں بنائیں گے، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کریں گے لیکن قبضہ گروپوں اور مافیاز کو قانون کے نیچے لائیں گے۔ جب بڑے مافیا کو قانون کے نیچے آ جائیں گے تو چھوٹے چھوٹے مافیا خود ہی ڈر جائیں گے۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف کے لئے کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ ان کی پانچوں انگلیاں پہلے کی طرح گھی میں رہیں لیکن اب یہ ممکن نہیں۔