جینے اور مرنے میں فقط ایک سانس حائل ہے
صدا آتی ہے دھڑکن سے،ابھی نکلی ابھی نکلی
کیا کہوں ہم امین کنجاہی کے بارے میں، وہ جہاں ممتاز دانشور، شاعر، ادیب اور قلم کار ہیں وہاں ایک با ذوق ،خوبصورت ،اور دلکش شخصیت کے مالک بھی ہیں مکتبہ پاک ادب اور فن کدہ پاکستان کے تعاون سے روایتی حسنِ طباعت کے ساتھ عشق آتش کے نام سے افسانوں کا مجموعہ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔معنوی اور صوری خوبیوں سے مزین یہ مجموعہ یقینا اہل ِ علم وادب کی توجہ حاصل کرے گا۔ مضامین کی رنگارنگی اور موضوعات کی کرافٹنگ نے اسے نئی نسل میں امتیازی مقام پر فائز کردیا ہے ۔ مضامین کی تازگی جب تشبیہ و استعارہ،علامت و کنایہ،روزمرہ و محاورہ،زبان اور بیان کی خوبصورتی کے ساتھ داستان بنتی ہے تو دلوں کو تسخیر کرتی چلی جاتی ہے ، کنجاہی صاحب کا لب ولہجہ اپنے معاصر ین میں رنگِ یگانہ کے باعث ممتاز بھی ہے اور دل نواز بھی …کنجاہی جی اپنے انٹرویوز میں اکثر کہتے سنے گئے ہیں کہ وہ خوبصورت نہیں لیکن انکا ذاتی طور سے یہ ماننا ہے کہ انسان کی وضع قطع اسے حسن ہی نہیں بخشتی بلکہ اس کی زبان سے ادا ہوئے ہر لفظ پر اس کی شان عیاں ہوتی ہے،پھر چاہے وہ اچھی صورت میں ہو یا رویہ یا خیالات… امین کنجاہی تعریفوں کے محتاج نہیں لیکن حیرانی ہوتی ہے وہ ابتک بہت زیادہ توصیفیں ’’بٹور‘‘ چکے ہیں ۔گزشتہ ماہ کے وسط میں کنجاہی صاحب کی ایک اور بے مثال کاوش’’ عشق آتش‘‘ منظر عام پر آئی تو یوں لگاکہ ثقافت و ادب اور علم فنون کے بکھرے موتیوں کو پھر سے ایک لڑی میںسجانے کی لازوال و تاباں کوشش رنگ لا رہی ہے۔یہ درست ہے کہ اصناف ادب کی تخلیق کسی کرامت کے نتیجے میں نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ہمارے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہے اسی بات کو کنجاہی جی نے اپنی تصانیف میں ملحوظ خاطر رکھا ۔ مستقبل قریب میںان کے افسانوں کے مجموعہ عشق آتش کی تقریب رونمائی ہونے والی ہے… یادش بخیر جب ان سے بیٹھک لگتی ہے توعلم و فنون کے نئے در کھلتے ہیں ۔ آصف امین کنجاہی خاندانی ذہانت و فطانت کا مظہر دکھائی دیتے ہیں۔دوسری جانب اندازہ ہوا کہ ان کا مجموعہ عشق آتش انقلاب کی آندھیوں میں روشن ہونے کی سکت رکھتا ہے۔ انتالیس کہانیوں اور دو دلچسپ خطوط (مزاح کی دنیا کے شہنشاہ معین اختر کے نام اور عالم بالا سے معین اختر کا مکتوب بنام جگری ساتھی انور مقصود) پر مبنی اورایک سو چھییتر صفحات پرمشتمل عشق آتش صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ذہنی و جذباتی آسودگی کا عدیم المثال ذخیرہ ہے جس میں زندگی کی ترجمانی کو پیش نظر رکھا گیاہے۔وہ جیسے انور مقصود کہا کرتے تھے کہ بھائی جس جگہ قلم لکھتے لکھتے رک جائے تو آگے نہیں لکھنا چاہئیے ، ہم سوچ میں بیٹھے ہیںکہ کہاں اتنی بڑی شخصیات کے درمیان اپنی فہم و ادراک کو آزمائیں چناچہ بس چیدہ چیدہ معاملات پر نظر ڈالنا ہی کافی ہو گا یوں برائے نام عزت بچی رہے گی۔ بات ہو رہی ہے کنجائی صاحب کے عشق آتش کی ، جہاں اس کتاب میں سعادت حسن منٹو کابے لاگ نظریہ اور سفاک حقیقت نگاری نظر آئے گی وہاں ،سماج کے ہر طبقے اور ہر طرح کے انسانوں کی رنگارنگ زندگیوں کو ،ان کی نفسیاتی اور جذباتی تہہ داریوں کے ساتھ ، معاشرے کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنے کا موقع بھی ملے گا۔اور احمد ندیم قاسمی جیسے شہرہ آفاق ادیب و شاعر کا عکس بھی ملے گا جنھوں نے زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ اپنے کرداروں کی نفسیاتی گرہیں کھولنے کی بھی کوشش کی۔امین کنجاہی جہاں ایسے ہی انداز و افکار میںپنہاں حکمت و بصیرت کے دئیے روشن کر رہے ہیں وہاں غلام عباس ، خالدہ حسین اور منشاء یاد کے افسانوں کی دلکشی یقینا ادب کے پیاسے پنچھی کے لئے فضا معطر بنانے کی سعی کررہے ہیں۔ امین کنجاہی کا شعری مجموعہ ، با حیا سی لڑکی اور ایمانداری میں احساس کی شدت اور جذبوں کے خلوص کو ادراک و شعور کی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ دلکش سے حسین صورت میں پیش کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان مجموعوں نے بے مثال ایوارڈ حاصل کئے۔ زیر طبع
شعری مجموعے ، اکلاپا(پنجابی)، تیرے بغیر زندگی ، راز زندگی ( مجموعہ لیکچرز) اور کالموں کا گلدستہ (معاف کیجیئے) میں لطیف آمیزش کا اظہار نمایاں ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ غزل ہو یا نظم اپنی تخلیق کی منزل تک پہنچنے میںبڑی دشوار گزار راہوں سے گزرتی ہے تب جا کہ تہذیب یافتہ شعور اور احساس جمال کو تسکین پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہے اور امین کنجاہی کا یہی فنی معیار ہی جمالیاتی اقدار ،یہی مخصوص انداز اور آہنگ مل کر افراد کے احساس جمال کی تسکین کے لئے ادب اور فن پیدا کر رہے ہیں۔