گھریلو تشدد ،جنسی ہراسگی ،بچوں سے زیادتی اورجبری مشقت کے بڑھتے واقعات تشویشناک حد تک بڑھ گئے ہیں کوئی تھانہ، پولیس چوکی ایسی نہیں جن میں اس طرح کے واقعات رپورٹ نہ ہوئے ہوں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت میں جا رہا ہے معاشرتی مسائل میں اضافے کے ویسے تو کئی دیگرعوامل بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے واقعات روکنے کیلئے قوانین کی عملداری پہلی ذمہ داری ہوتی ہے جس کیلئے پولیس کو اپنی بہتر حکمت عملی کے ساتھ چلنا ہوتا ہے اس سلسلے میں پولیس لیڈر شپ کی ذمہ داری ہوتا ہے کہ وہ چوکنا رہ کر اپنی فورس کی بہتر بریفنگ کا انتظام کرے پولیس گشت با مقصد ہونا چاہئیے گاڑیوں میں بیٹھے پیدل افراد اور گاڑیوں میں بیٹھے شخص کے ساتھ بیٹھے بچے یا بچی کے چہرے کی پریشانی یا خوف کے تاثرات دیکھنے کی بھی پولیس میں صلاحیت ہونی چاہئے وفاقی پولیس کے لئے تھانہ کورال میں ایک بھائی کی دی گئی وہ درخواست ہی ٹیسٹ کیس ہے جس نے پولیس کو بتایا کہ ان کی ہمشیرہ کو گھر میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس خاتون کی تشدد کی حالت میں ویڈیو کلپ ہی دل دہلا دیتا ہے لیکن اس پر ایس ایچ او کا بچگانہ موقف اس تشدد سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا کہ معاملہ چار ماہ پرانا ہے اگر کسی جگہ ڈینگی، پولیو کا ایک مریض رپورٹ ہوجائے تو ضلعی انتظامیہ کی خواتین اور مرد عملے پر مشتمل ٹیمیں ان جگہوں کا مختلف اوقات میں معائنہ کرتی ہیں لیکن اگر کہیں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہونے کی رپورٹ دے تو اسے گزرا واقعہ قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑا لینا بھی دراصل اپنے فرائض سے انحراف ہے لیکن یہ امر انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمن نے وفاقی دارالحکومت میں جنسی ہراسگی کے شکار خواتین و بچوں اور جبری مشقت سے دو چار کمسن بچوں کی مدد کے لئے جینڈر پروٹیکشن یونٹ،ہیلپ لائن 8090کا آغازکردیا ہے جس کیلئے الگ ڈیسک بنادیا گیا ہے جس پر پولیس کی خصوصی تربیت یافتہ خواتین افسران کوتعینات کیاگیا ہے جبکہ ان کے ہمراہ قانونی ،نفسیاتی،طبی عملہ بھی موجود ہو گاتاکہ متاثرہ خواتین و بچوں کو ایک چھت تلے پولیس پروٹیکشن میں ماہر نفسیات،ماہر قانون ،میڈیکل آفیسر کی بھی سہولت میسر ہو یقیناً ان اقدامات سیمتاثرہ خواتین و بچوں کو بروقت ہر قسم کی مددفراہم ہوگی جو اس وقت بنیادی ضرورت ہوتی ہے اس یونٹ کو موٹر انداز میں چلانے کیلئے ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر مصطفیٰ تنویر کی محنت اورمانیٹرنگ نے اسے مزید فول پروف انتظامات فراہم کر دیئے ہیں جینڈر پروٹیکشن یونٹ اور ہیلپ لائن 8090کے قیام کے حوالے سے عوامی سہولت مرکز ایف سکس میں وہ کئی دورے بھی کر چکے ہیں دراصل آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمان نے وفاقی پولیس کو ہر شعبے میں بہترین ٹیم دے کر موثر پولیسنگ کیلئے جن کوششوں کا آغاز کیا یہ سب اس کی کڑی ہیں قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اپنے ایک سروے میں بھی عوامی سہولت مرکز کی خدمات کو سفارش فری قرار دیا ہے اب پولیس کو اپنے اس شعبے کی بغیر سفارش کر یڈیبلٹی کو مزید طاقت فراہم کرنی ہے جہاں ماحول بھی دوستانہ ہو معمر افراد کی چائے، کافی یا ٹھنڈے مشروبات سے تواضع بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی ضعیف العمری کے باعث تھکاوٹ سے محفوظ رہیں اے ایس پی آمنہ بیگ اس جینڈر پروٹیکشن یونٹ و ہیلپ لائن کی نگرانی کر رہی ہیں وہ راولپنڈی میں تعیناتی کے دوران بھی جینڈر پرو ٹیکشن کے حوالے سے بھی اچھی خدمات انجام دے چکی ہیں آئی جی اسلام آبا د کا یہ عزم بڑا اہم ہے کہ ہم نے محسوس کیا کہ ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کے تحت ظلم و زیادتی کا شکار خواتین کو ایک ہی چھت تلے ساری سہولیات فراہم کی جائیں،ایک ایسا آسان سا نمبرفراہم کیا جائے جو شہریوں کوچوبیس گھنٹے دستیاب ہو وہاں پر باقاعدہ طور تربیت یافتہ عملہ تعینات رہے جس کو ایسے معاملات کی حساسیت کے بارے میں عبور حاصل ہو تاکہ شکائت کنندہ کو سنے اور فوری طور پر اس کی رہنمائی اور دادرسی کریمتاثرین کو معاشرتی مدد کی اشد ضرورت ہو تی ہے،ان سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام آبا د پولیس نے معاشرے کی بے رحمی کا شکار خواتین و بچوں کی فوری مدد کے لئے جینڈرپروٹیکشن یونٹ و ہیلپ لائن کا آغاز کیا ہے جس کا عملہ پابند رہے گا کہ وہ ہیلپ لائن ڈیسک پر متاثرہ خواتین و بچوں کوتحفظ فراہم کر دے
یہ بات اہم ہے کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک خواتین بھی محنت نہ کریں یہ تب ممکن ہو گا جب خواتین اپنے آپ کوطاقتور اور محفوظ سمجھیں گی جینڈر پروٹیکشن یونٹ کو ایک سسٹم بننا چاہئے تاکہ معاشرے میں خواتین اور بچوں کو نہ صرف تحفظ ملے بلکہ انسانوں کے لبادے میں چھپے بھیڑیے نہ صرف پکڑے جائیں بلکہ انہیں سزائ بھی ملے یقینی طور پر جب اس ڈیسک میں کسی بھی ایسے وقوعہ کے متاثرہ آئیں گے تو میڈیکل اور قانونی ماہرین کی پہلی رپورٹ پولیس انویسٹی گیشن میں اہم رول ادا کر ے گی اس ساری کوشش کابنیادی مقصد خواتین و بچوں کو تحفظ فراہم کرناہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پولیس پرشہریوں کا اعتماد بحال کر نا بھی ضروری ہے جس کے لئے پولیس لیڈر شپ کا رول بڑی اہمیت کا حامل رہے گا.ویسے بھی وفاقی دارالحکومت میں انتظامی اور پولیس سسٹم کو رول ماڈل بنانے کی عرصہ سے ضرورت تھی کیونکہ اسی سے گڈگورننس بھی اجاگر ہوتی ہے ہمیں ترقی یافتہ ملکوں کی پولیسنگ اور شہری انتطامی امور کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن جب اپنیہاں بہتری رونما ہونے لگے تو اس سے یہ حوصلہ اور امید بڑھتے ہیں کہ ہم بھی اصلاح احوال میں اپنی ضرورتوں سے اچھی طرح واقف ہیں.
معاشرتی مسائل اور وفاقی پولیس
May 31, 2021