رواں مالی سال کے شروع میں IMFنے پاکستان کے گروتھ ریٹ کی پروجیکشن دو فیصد پر رکھی تھی جبکہ ورلڈ بنک نے ڈیڑھ فیصد پر ہمارے اپنے سٹیٹ بنک کی پروجیکشن تین فیصد تھی کل ہی نیا ڈیٹا ریلیز کیا گیا ہے جس نے ان تینوں کوغلط ثابت کر دیاہے پاکستان میں ا س وقت 3.95فیصد GDPریکارڈ کی جا رہی ہے جبکہ انٹر نیشنل مالیاتی ادارے موڈیز کی رپورٹ میں پاکستان کی جی ڈی پی 4.4دکھائی گئی ہے جوکہ ایک حیرت انگیز لیکن خوشگوار بات ہے طویل عرصے کے بعد پاکستان کی معیشت کے حوالہ سے اتنی اچھی خبر سامنے آئی ہے اگر یہ کوئی اعدادوشمار کا گورکھ دھندا نہیں ہے تو پاکستان ایک دفعہ پھر معاشی ٹریک پر چڑھ گیا ہے یاد رہے کہ گذشتہ مالی سال میں ہم منفی GDPگروتھ کاشکار تھے اور ملکی معیشت میں بہتری کے کوئی آثار نہیں تھے اور اب جو اعدادوشمار سامنے آ رہے ہیں ان میں ہماری زراعت کا کردار زیادہ ہے گندم ،سبزیاں ،فروٹس اور دیگر اجناس کی ریکارڈ پیداوار کے بعد ہماری ایکسپورٹ میں بہتری بھی واضح ہے اس وقت خطہ میں پاکستان بہت سے ممالک سے بہتر کارکردگی دکھاتا نظر آ رہاہے کچھ عر صہ پہلے ایک معاشی ایکسپرٹ سے بات ہو رہی تھی اس نے بتایا تھا کہ آج کل کے حالات میں ہماری اور انڈیا کی معیشت میں ایک بنیادی فرق ہے ہمارے Fundamentals کافی مضبوط ہیں اور پیداواری میدان میں ہم انڈیا کی نسبت بہتر عمل کرتے نظر آ رہے ہیں پاکستان کی معیشت اگر اسی انداز میں گروتھ کر رہی ہے تو جولائی سے جو اگلا مالیاتی سال 2021-22شروع ہو گا اس میں پاکستان کی GDPگروتھ 7فیصد یا اس سے بھی پلس ہو سکتی ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ اس کا اثر ہماری غربت کی لکیر سے نیچے موجود آبادی پر کیوں نہیں ہو رہا خاص طور پر روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی شرح بہت کم ہے جس سے مڈل کلا س کی قوت خرید میں وہ اضافہ نظر نہیں آ رہا جو ملکی معیشت کے اشارے ظاہر کر رہے ہیں بے شک سٹاک مارکیٹ جمپ پر جمپ لگا رہی ہے لیکن اس کے ثمرات اوپر ہی اوپر ہیں نیچے کچھ بھی نہیں آرہا جو قابل تشویش ہے اس طرح کا ماحول ہم پہلے بھی دیکھتے رہے ہیں ہر پانچ سال میں ڈیڑھ سال ایسا گذرتا ہے جب یہ پوری کہانی دہرائی جاتی ہے گذشتہ تین دہائیوں کا ریکارڈ ہے کہ ہر حکومت کے دور میں ایک دفعہ کچھ عرصے کیلئے یہ ضرور ہوتا ہے کہ یکدم معیشت میں بہتری کے تمام ریکارڈ ٹوٹتے نظر آتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں معاشی استحکام کا تسلسل کبھی رہاہی نہیں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ملک کی سیاسی اشرافیہ ہے جو معاشی ترقی کے تمام فوائد کا رخ اپنی جانب موڑ لیتی ہے اور پھر جیسے ہی حکومت بدلتی ہے اگلے آنے والے پہلے والوں کے وہ معاشی منصوبے ختم کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں جن کے فوائد نئے آنے والوں کو ملنے کے امکان نہیں رہتے اور پھر و ہ نئے منصوبوں پر کام کرتے ہیں جہاں سے ان کا منہ میٹھا ہو یہ ایک ایسا شیطانی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اب دیکھ لیں جو صنعت مشرف دور میں لگیں وہ زرداری دور میں متاثر ہوئیں جو زرداری دور میں لگیں وہ نواز دور میں پریشان کن حالات کا شکار ہو گئیں ہیں اور جو نواز دور میں معاشی سکون آیا وہ موجودہ کپتان کے دور میں تہہ بالا ہو گیاہے اوریہ جو اب معیشت گورتھ کرے گی وہ اگلے کسی حکمران کے دور میں برباد ہو جائے گی حال یہ ہے کہ 10سے15سال میں 70فیصد کاروبار کرنے والے پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور نئے کھلاڑی سامنے آجاتے ہیں پاکستان کی صنعت اور تجارت میں صرف 30فیصد لوگ ہیں جس کے کاروبار دو سے چار دہائی ان کے پاس رہتے ہیں جبکہ دنیا میں سینکڑوں سال کاروبار ایک ہی فیملی کے پاس رہتے ہیں اور اس صورتحال کی وجہ ملکی معاشی پالیسیوں میں ہر 5سے10سال کے بعد 90کی ڈگری پر ہونی والی تبدیلیاں ہیں ۔
اب ایک نظر کاٹن مارکیٹ پر جہاں سندھ کے ساحلی علاقوں میں نئی کپاس کی آمد شروع ہو گئی ہے اور سندھ کی نصف درجن کاٹن فیکٹریوں نے نئی پھٹی کی خریداری شروع کر دی ہے پھٹی کی قیمت اوسط 6000روپے من سے شروع ہوئی ہے جبکہ کے کاٹن کے ایڈوانس سودے 12200سے13000تک میں ہوئے ہیں مارکیٹ میں کاٹن کی ڈیمانڈ نظر آ رہی ہے گذشتہ سال پاکستان میں کاٹن کی کم ترین پیداوار کی وجہ سے اس وقت ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر کو کاٹن کی شدید ضرورت ہے پاکستان اس وقت امریکی کاٹن کا دوسرا سب سے بڑا خریدار ہے لیکن جس طرح کی خریداری اس وقت پاکستانی ملیں امریکہ سے کر رہی ہیں لگتا ہے پاکستان امریکہ کا سب سے بڑا خریدار بن جائے گا اور ایسا تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ پاکستان امریکی کاٹن کا دنیا میں سب سے بڑا خریدار بن جائے گا گذشتہ ہفتہ بھی امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے چین کے بعد امریکہ سے سب سے زیادہ کاٹن خریدی اور چین و پاکستان کی خریداری میں گذشتہ ہفتہ 5فیصد کا فرق مشکل سے تھا اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان میں کاٹن کی فصل پر حکومت کے ساتھ ہر سٹیک ہولڈرز بھی اپنا کردار ادا کرے تاکہ ایک اچھی فصل پیدا ہو ابتدائی تخمینہ کے مطابق پاکستان میں کاٹن سیزن 2021-22میں ایک کروڑ پانچ لاکھ کاٹن بیلز پیدا ہونے کا اندازہ ہے اللہ کرے کاٹن پیداوار اس سے بھی بہتر ہو حکومت کاٹن پیدا کرنے والے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی جاری رکھے ۔
"جی ڈی پی گروتھ ،کاٹن"
May 31, 2021