ریکوڈک کیس میں شاندار کامیابی:  حکومت پاکستان کی قانونی ٹیم کی شاندار فتح 

May 31, 2021

پیر فاروق بہاوالحق شاہ

ریکوڈک کیس میں پاکستان کی کامیابی پر  پی آئی اے کے اربوں کے اثاثے فروخت ہونے سے بچ گئے۔یہ پاکستانیوں کی بہت بڑی جیت ہے، پی آئی اے کے قیمتی اثاثے محفوظ ہوگئے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایئر مارشل ریٹائرڈ ارشد ملک  نے ریکوڈک فیصلے پر خوشی کا اظہار  کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پی آئی اے کے اربوں کے اثاثے فروخت ہونے سے بچ گئے۔انہوں نے ایک بیان میں  کہا کہ محب وطن پاکستانیوں کی دعاؤں سے انصاف کی فتح ہوئی اور پی آئی اے کی قانونی ٹیم ،وفاقی وزیر قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان کی محنت سے کامیابی ملی ہے۔
ارشد ملک نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پی آئی اے کے قیمتی اثاثے محفوظ ہوگئے ہیں، یہ پاکستانیوں کی بہت بڑی جیت ہے۔انہوں نے کہا یہ عظیم قانونی جیت بے لوث قیادت کے تحت اور مشترکہ کاوش سے ممکن ہوئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے خوشخبری سنائی گئی ہے کہ برطانیہ کی ورجن آئی لینڈ ہائیکورٹ نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا گیاہے۔عدالت کی جانب سے ٹیتھیان کمپنی کے حق میں دیے گئے فیصلے کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں۔ پاکستان کیخلاف دیے گئے تمام فیصلے واپس ہوگئے۔ جس کے بعد پاکستان کو نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل سمیت پیرس میں واقع اسکرقائب ہوٹل واپس مل گئے ہیں۔ پاکستان کے حق میں سنائے گئے فیصلے کی وجہ سے پاکستان بیرون ممالک میں اپنے اربوں روپے کے اثاثے بچانے میں کامیاب رہا۔ جبکہ برطانیہ کی ورجن آئی لینڈ ہائیکورٹ کے فیصلے میں ٹیتھیان کمپنی کو مقدمے کے تمام اخراجات بھی برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پی آئی اے کے اثاثوں کی مالیت کتنی ہے۔۔
موجودہ کامیابی کا اصل تجزیہ تب ہوسکتا ہے جب ہم یہ اندازہ کر سکیں کہ ان اثاثوں کی مالیت کتنی ہے۔پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز دنیا کی کامیاب ہوائی کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کے دنیا بھر میں مختلف مقامات پر اثاثہ جات ہیں۔بی بی سی اردو میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق 2019 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پی آئی اے کے بین الاقوامی اثاثوں کی قیمت ایک ارب ڈالر سے کم بنتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اگر یہ اثاثے ضبط کر کے غیر ملکی کمپنی ٹی سی سی کو دیے جاتے تو بھی کمپنی تقریباً چھ بلین ڈالر کا ہدف حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ 
پاکستان کے خلاف فیصلہ کا پس منظر
پاکستان کے فیصلہ سازوں کے غلط حکمت عملی اور اس وقت کے عدالتی فیصلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد متعلقہ کمپنی جب عالمی عدالتوں میں اپنا کیس لیکر گئی تو اسکی مناسب پیروی ہی نہ کی گئی۔جب پاکستان کے خلاف ریکوڈک کا فیصلہ آ گیا اور اس سلسلے میں عالمی اداروں کی فیصلہ پر عملدرآمد کی کوششیں شروع ہو گئیں تو دفتر خارجہ نے کسی ممکنہ قانونی کارروائی کے نقصان سے بچنے کے لیے پی آئی اے سمیت پاکستانی اداروں کو بیرون ملک اپنے اثاثے کم سے کم رکھنے کی بھی ہدایات دی تھی۔
ٹی سی سی نے حکومتِ پاکستان سے صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے کروڑوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کے مقدمے کے حوالے سے بی وی آئی کی ہائی کورٹ آف جسٹس سے تقریباً چھ ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا تھا۔جس طرح کہ پہلے عرض کیا کہ ان مقدمات کی پیروی نہ ہونے کے باعث پاکستان کے خلاف فیصلے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ان فیصلوں کے ساتھ ساتھ  پاکستان کی عالمی ثالثی ٹریبونل کے 2019 والے فیصلے کے خلاف درخواست ابھی بھی زیر سماعت ہے جس میں بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل (ICSID) نے پاکستان کو ریکوڈک پراجیکٹ میں ٹی سی سی کو لیز دینے سے انکار کرنے پر قصور وار ٹھہرایا تھا۔
بلوچستان میں معدنی ذخائر کی اہمیت۔
صوبہ بلوچستان میں واقع ان کانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہیں جن پر آج تک صحیح طرح کام شروع نہیں ہو سکا۔گذشتہ برس بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے پاکستان پر صوبہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے کروڑوں ڈالر مالیت کے ریکوڈک پراجیکٹ کے مقدمے میں تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔
جولائی میں دیے گئے اس فیصلے کے بعد پاکستان کی درخواست پر ایک ایڈہاک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے کچھ شرائط کے ساتھ پاکستان کے حق میں چند ماہ کا حکم امتناعی جاری کر دیا تھا، جسے اس وقت پاکستانی حکام نے بڑا ریلیف قرار دیا تھا۔لیکن پھر نومبر میں پاکستان کے خلاف ایک اور فیصلہ سامنے آیا جس کے مطابق پاکستان بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل کی طرف سے ریکوڈک مقدمے میں حکم امتناعی کی شرائط پوری کرنے میں ناکام ہو گیا اور اس مقدمے میں شکایت کنندہ غیر ملکی کمپنی ٹی سی سی نے ایک بار پھر پاکستان سے اربوں ڈالر جرمانہ وصول کرنے کے لیے درخواست دائر کر دی تھی۔
ٹی سی سی اور حکومت بلوچستان کے درمیان تنازع کب پیدا ہوا؟
ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے۔ ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا مگر ہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کو مسترد کر دیا۔
بعد میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ کی لائسنس کے حصول کے لیے دوبارہ حکومت بلوچستان سے رجوع کیا۔اس وقت کی بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کے لیے بیرون ملک نہیں لے جائے گی۔ حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بھی بڑھانے کی شرط بھی رکھی گئی۔سینڈک پراجیکٹ سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ملنے کے باعث حکومت بلوچستان کی جانب سے یہ شرائط بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے رکھی گئی تھیں۔کمپنی کی جانب سے ان شرائط کو ماننے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے اور محکمہ بلوچستان مائننگ رولز 2002 کے شرائط پوری نہ ہونے کے باعث معدنیات کی لائسنس دینے والی اتھارٹی نے نومبر2011 میں ٹی سی سی کو مائننگ کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا تھا۔اس فیصلے کے خلاف ٹی سی سی نے صوبائی سیکریٹری مائنز اینڈ منرلزحکومت بلوچستان کے پاس اپیل دائر کی تھی جسے سیکریٹری نے مسترد کیا تھا۔
ریکوڈک کا معاملہ اور بین الاقوامی ثالثی فورمز 
2011 میں مائننگ کے لیے لائسنس مسترد ہونے کے بعد ٹی سی سی نے پاکستان میں کسی فورم میں جانے کے بجائے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا۔ ان میں سے ایک ایکسڈ جبکہ دوسرا آئی سی سی کا تھا۔ پاکستانی حکام کے مطابق ٹی سی سی کی جانب سے 16 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
ان فورمز پر پاکستان کی جانب سے جن ماہرینِ قانون کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ان میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ ان فورمز پر حکومت پاکستان کی جانب سے  موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹی سی سی نے بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے افسروں کو رشوت دے کر ابتدائی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزید علاقے اپنے لیزمیں شامل کرائے تھے۔
جرمانے کی رقم کون ادا کرے گا؟
پاکستان کے قانونی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث رہا کہ اگر پاکستان کو جرمانہ عائد کر دیا گیا تو یہ جرمانہ کون ادا کرے گا۔اگرچہ ریکوڈک پر غیر ملکی کمپنیوں نے ایکسپلوریشن کا آغاز 1993 میں کیا تھا لیکن 2011 میں کمپنی کی مائننگ کی لائسنس کے لیے درخواست کی منسوخی تک چند درجن ملازمتوں کے سوا معاشی لحاظ سے بلوچستان کو اس منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ملا تھا۔
میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران جام کمال خان کا کہنا تھا کہ ہرجانے کی جو رقم ہوگی اس کی ادائیگی حکومت بلوچستان کو کرنی ہوگی۔ثالثی فورم کی جانب سے بطور ہرجانہ جس رقم کا تعین کیا گیا ہے ماہرین کے مطابق اگر بلوچستان کے گزشتہ تین چار سال کے دوران بجٹ کے حجم کو دیکھا جائے تو یہ تقریباً بلوچستان کے تین سال کے بجٹ کے برابر ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بطور ملک ہمیں کہیں سے دو تین ارب ڈالر ملیں تو ہم بہت خوش ہوتے ہیں لیکن ہرجانے کی رقم بہت زیادہ ہے۔وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ اتنی بڑی خطیر رقم کی ادائیگی کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اس کی ادائیگی کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدم ادائیگی کی صورت میں پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر نقصان ہوگا اور ملک کے لیے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس کیس کی فیس بھی ہم دے رہے ہیں اوراب تک حکومت بلوچستان نے فیس کی مد میں ڈھائی سے تین ارب روپے کی ادائیگی کی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے سابق حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں معدنیات کے اچھے قواعد و ضوابط ہیں اگر جلد بازی میں کمپنی کے ساتھ معاہدے کو مسترد کرنے کی بجائے اس کو مختلف خلاف ورزیوں پر مرحلہ وار نوٹس جاری کر کے معاہدے کو منسوخ کیا جاتا تو شاید آج بلوچستان کو اتنا نقصان نہ پہنچتا۔ریکوڈک کیس میں سابق حکومتوں کی ناقص کارکردگی کا زمہ دار کون؟؟؟

اس مقدمہ کو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں نے ڈیل کیا۔2012 سے یہ مقدمہ شروع ہوا۔یوں ایک دہائی تک یہ کیس مختلف عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔جسٹس افتخار چوہدری کے گمراہ کن اور ناقص فیصلوں کی بدولت عالمی عدالتوں میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوء مسلم لیگ ن کے راہنما بیرسٹر ظفراللہ خان جو مسلم لیگ نواز کے گذشتہ دور حکومت میں آہم قانونی عہدے پر فائز بھی رہ چکے ہیں۔

وہ ذاتی طور پر اس مقدمے کو عالمی فورم پر لڑنے کی اپنی ہی حکومت کی حکمت عملی سے اختلاف بھی رکھتے تھے جس کا اظہار انھوں نے وزارت قانون میں رہتے ہوئے ایک علیحدہ نوٹ کی صورت میں بھی کیا تھا۔
بی بی سی اردو کے مطابق اس مقدمے میں فوج سمیت گذشتہ اور موجودہ حکومتوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان کو ہر صورت اس مشکل سے بچایا جا سکے۔ ظفراللہ خان کا  کہنا ہے کہ اس مقدمے میں فوج کے افسران ہمارے ساتھ اجلاسوں میں شریک رہے اور ہمیں اچھی معاونت دی۔
افتخار چوہدری کے فیصلے پر بات کرتے ہوے بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ  اس طرح کے مقدمات میں فیصلے دیتے ہوئے ہمارے قانونی فورمز (عدالتوں) کو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ اس سے نقصان ملک کا ہوتا ہے۔
عدالت سے باہر ڈیل کیوں نہ ہوسکی 

اس سوال کے جواب میں  بیرسٹر ظفراللہ خان نے بتایا کہ اس مقدمے میں غیر ملکی کمپنی ٹی سی سی کی طرف سے پاکستان کو بہت کم رقم پر سیٹلمنٹ کی پیشکش ہوئی تھی مگر قومی احتساب بیورو کے ڈر سے یہ آفر قبول نہیں کی جا سکی۔ ان کے مطابق نیب کے بارے میں یہ خوف پایا جاتا تھا کہ اگر ڈیل ایک ارب میں بھی کی گئی تو ’اختیارات سے تجاوز‘ کے مقدمات قائم ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ان کے مطابق ایگزیکٹیو اور بیوروکریسی اس معاملے میں ڈر کا ہی شکار رہی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ جس رقم پر ڈیل کی جا رہی تھی وہ جرمانے کی رقم کے مقابلے میں بہت ہی کم رقم بنتی تھی۔بیرسٹر ظفراللہ  نے پی ٹی وی کے چیئرمین سے متعلق سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اب جن کی وجہ سے یہ مقدمہ پاکستان کے لیے وبال جان بنا ان سے ان کی تمام تنخواہیں واپس لی جائیں۔
خلاصہ کلام۔
ریکوڈک کے معاملہ پر عالمی عدالتوں کی طرف سے پاکستان کے حق میں فیصلہ آنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس وقت پاکستانی حکام سنجیدگی سے اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ماضی میں حکومتوں نے اس انتہائی اہم ترین مسئلہ کو جس غیر ذمہ داری کے ساتھ ڈیل کیا ماضی  کے فیصلے اس کا واضح ثبوت ہیں۔ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے اس طرح کے فیصلوں سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی۔غیر ذمہ داری کی انتہا یہ تھی کہ بیرون ملک اثاثوں پر عالمی عدالتوں نے اپنے ٹیک لگا دیے تھے۔جس سے پاکستان کے وقار خودمختاری سلامتی اور عزت و وقار پر سوالیہ نشان ثبت ہو چکے تھے۔موجودہ پاکستانی حکومت خصوصا وزارت قانون،اٹارنی جنرل  آفس اس بات پر مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اس معاملے کے تمام پہلوئوں کو سنجیدگی سے دیکھا اور پاکستان کے حق میں فیصلہ کروانے کے اقدامات کیے۔حکومت پاکستان کے تمام ادارے ایک پیج پر رہے۔ اور باہمی کوآرڈینیشن سے ایک اچھا فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔پوری پاکستانی قوم اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ جس طرح ریکوڈک کیس میں حکومت نے مہارت کا ثبوت دیا اسی طرح عالمی تنازعات خصوصا پانی کے مسائل پر بھی اسی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

مزیدخبریں