میاں علی افضل
سی آئی اے یقینا پولیس کے ماتھے کا جھومر ہے ایسی ایسی تفتیش کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور پھرسی آئی اے میں پیر خالد ابوبکر جیسے ایماندار اور تجربہ کار آفیسر موجود ہوں تویقین کیا جا سکتا کہ حقیقی معنوں میں سی آئی اے کے وجود کا مقصد پورا ہو گیاپھر چاہے کیس 20سے 30سال پرانے اندھے قتل کا ہی کیوں نہ ہوملزمان کے ٹریس ہونے کے امکان100فیصد یقینی ہوتے ہیں ایسا ہی ایک اندھے قتل کا مقدمہ 13سال قبل تھانہ شاہدرہ ٹائون میں درج ہوا تھا جس میں گھر میں گھس کر ڈاکوئوں نے دوران ڈکیتی مزاحمت پر کپڑے کے تاجر کو گولیاں مار کر قتل کر دیا اور موقع سے فرار ہو گئے ملزمان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا اور پولیس نے ملزمان کی تلاش کے لئے کوششیں بھی بہت کیں لیکن ملزمان کا کوئی سراغ نہ مل سکا اور آخر کار کئی سال گزرنے کے بعد تاجر کے اندھے قتل کی تفتیش سی آئی اے کوتوالی کے سپرد کر دی گئی اور ڈی ایس پی سی آئی اے کوتوالی پیر خالد ابوبکر کی سربراہی میں بننے والی ٹیم جس میں انسپکٹر غلام باری اور اے ایس آئی شفیق انجم شامل تھے جنہیں اس کیس کے حل کا ٹارگٹ دیا گیا قاتلوں کی گرفتاری اور قتل کے پیچھے چھپے اصل محرکات سامنے لانے کی ہدایت کی گئی اندھے قتل کی یہ واردات 13اگست 2009کو ہوئی جب شاہدرہ ٹائون کا رہائشی 45سالہ عاشق حسین جو کپڑے کا کاروبار کرتا تھا عاشق حسین اپنے گھر کی رینووشن کروا رہا تھا اور زیر تعمیر گھر کا لینٹر ڈلوانے کے لئے 3لاکھ روپے لیکر گھر پہنچا تھا کھانا کھانے کے بعد عاشق حسین سو گیا رات تقریبا 1بجے 2مسلح ڈاکو کے اندر داخل ہوئے اور صحن میں سوئے عاشق حسین اس کی بیوی اور 6بچوں سے اسلحہ کے زور پر پیسوں کی حوالگی کاکہتے رہے اسی دوران عاشق حسین اور ڈاکوئوں میں تکرار ہو گئی جس پر ڈاکوئوں نے فائرنگ کر دی اور عاشق حسین گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گیا اور ڈاکو موقع سے فرا ہو گئے شدید زخمی حالت میں عاشق حسین کو ہسپتال منتقل کرکیا گیا جہاںوہ ایک ماہ اور 3دن زیر علاج رہنے کے بعد16ستمبر 2009کو خالق حقیقی سے جا ملا۔ جو پیسے عاشق حسین گھر کی رنیویشن کے لئے لیکر آیا تھا وہ 3لاکھ روپے عاشق حسین کے علاج پر لگ گئے عاشق حسین کے قتل کے بعد اس کی 5بٹیاں اور 1بیٹا یتیم ہو گئے۔ مقتول عاشق حسین کے اہلخانہ نے واردات کا الزام عاشق حسین کی بیوی پر ڈال لگا دیا لہذا ذہنی دبائو اور خوف کے باعث عاشق حسین کی بیو ی اپنا گھر اونے پونے داموں فروخت کرکے علاقہ بدر ہو گئی اور اپنے بچوں کو لیکرناروال کے علاقہ میں رہائش پذیر ہو گئی نئے گھر میں منتقل ہونے کے بعد بھی مقتول عاشق حسین کے6 بچے انتہائی خوف زدہ رہے گھر میں دروازہ بھی کھٹکھٹایا تو بچے خوف کے مارے چیخ و پکار شروع کر دیتے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے مقتول عاشق حسین کی بیوی نے کپڑے کا کاروبار شروع کر دیا اور گھر گھر جا کر کپڑا فروخت کرنے لگی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالتی رہی ،بے گناہی کے انتظار میں بالا ٓخر اس کی دعا قبول ہو گئی اور ایک روز اسے سی آئی اے کوتوالی سے فون آیا کہ آپ کے خاوندعاشق حسین کے قاتل گرفتار ہو گئے ہیںیہ سنتے ہی عاشق حسین کی بیوی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑ ے اور اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو گئی کہ 13 سال بعد اس کی بے گناہی ثابت ہوگئی ہے ۔ مقتول عاشق حسین کو قتل کرنے والے اسی کے محلے دار تھے جنہیں 13اگست 2009کو معلوم ہوا کہ عاشق حسین کے پاس گھر میں 3لاکھ روپے موجود ہیں جس کے بعد ملزمان تیمور، شرافت علی ، سلمان وغیر ہ نے واردات کی پلاننگ کی اور مسلح ہو کر عاشق حسین کے گھرگھس گئے اور ممکنہ مزاحمت پر عاشق حسین کو گولی مار کر قتل کر دیا ملزمان اتنے نڈرتھے کہ واردات کے بعد جب پولیس تفتیش کے لیے آئی تو پولیس کو غلط معلومات فراہم کرکے الجھاتے رہے اور بالآخر 13سال بعد قانون کے شکنجے میں آگئے ۔سی آئی اے کوتوالی کی بہترین کارکردگی پر سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ ،ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کامران عادل،ایس ایس پی انوسٹی گیشن عمران کشوراور ایس پی سی آئی اے عاصم کمبوہ نے پولیس ٹیم کے لئے نقدی انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹ کا اعلان کیا اور سی آئی اے کوتوالی کی ٹیم کو مبارکبار دی ہے ۔