ترقی یافتہ ممالک میں ہر جمہوری حکومت اوراُس کے حکمران آزادیٔ اظہارِ رائے کو یقینی بنانے پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں اور انکے نزدیک توانا اور آزاد صحافت ہی ایک صحتمند اور ترقی پذیر معاشرے کی ضامن ہوتی ہے۔ مذکورہ ممالک کے حقیقی جمہوری ارباب حکومت نے ہمیشہ مثبت اور تعمیری تنقید سے رہنمائی حاصل کی ہے اور وہ قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں اہل صحافت کی تجاویز کا خیر مقد م کرتے ہیں۔ کاش! ہمارے موجودہ حکمرانوں کو اس امر کا کامل ادراک ہو کہ اہل صحافت قومی رہنمائی کے مشکل ترین چیلنج سے بہ حسن و خوبی عہدہ برآ ہو رہے ہیں۔
اربابِ صحافت کا بنیادی فریضہ عوامی مشکلات و مسائل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔وہ صرف عوامی جذبات و محسوسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اہل صحافت، اہل سیاست کی طرح حزب اقتدار یا حزب اختلاف میں سے کسی ایک کے اتحادی نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ حق اور سچائی کا ساتھ دیتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے اس دور میں کسی مہذب جمہوری مملکت کے اربابِ حل و عقد کو یہ توقع نہیں رکھنا چاہیے کہ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے اربابِ قلم اگلے وقتوں کے مجبور دانشوروں کی طرح صرف ’’دربار داری‘‘ ہی کے مقتضیات کو پیشِ نظر رکھ کر قلم اٹھائیں گے۔ آزادیٔ صحافت کے پرچم کو سر بلند رکھنے کے لیے وطنِ عزیز کے اہل قلم نے لائق رشک اور گرانقدر قربانیاں دی ہیں۔بے جا طور پر پابندِ سلاسل صحافت در حقیقت کسی مملکت اور معاشرے کے اجڈ اور گنوار ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اقوام و ممالک کی ترقی میں آزادیٔ صحافت نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
آزادی کے ابتدائی 30برسوں میں آزادیٔ صحافت کے پرچم کو سربلند رکھنے کیلئے ان گنت نامور اربابِ قلم نے اپنی عمرِ عزیز کے بیش قیمت ترین ایام پسِ دیوارِ زنداں گزارے۔ عوام کے مسائل اور جذبات کی آئینہ داری کرنا اور انکی جانب اربابِ حکومت کی توجہ مبذول کروانا آزاد صحافت کا طرۂ امتیاز ہے۔ صحافی مجموعی طور پر غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن مسلمہ اقدار اور ملکی سلامتی کا سفینہ جب کسی حکومتی اقدامات کی وجہ سے گرداب اور بھنور میں ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے تو عوام تک حقائق پہنچانے کیلئے متاع لوح و قلم چھن جانے کے باوجودوہ اپنی انگلیوں کو خونِ دل میں ڈبو کر جنوں کی حکایاتِ خونچکاں لکھتا ہے۔ اس حقیقت سے دنیا کا ایک بھی ذی شعور شہری انکار نہیں کر سکتا کہ دریدہ پیرہن اور افلاس گزیدہ صحافیوں کے قلم کی کمزور سی نوک نے بسا اوقات موروثی شہنشاہیتوں اور عسکری آمریتوں کے مضبوط ترین تخت ہائے اقتدار و اختیار کے فولادی پایوں کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ ظالم اوراستحصالی طبقات مسلح افواج کے منظم ترین لشکروں سے اتنے خائف نہیں ہوتے جتنا کہ وہ ایک بے باک صحافی کے قلم سے نکلے ہوئے ایک جملے سے خائف ہوتے ہیں۔ دیانتدار اور بے باک صحافی کے قلم سے نکلنے والا ایک لفظ ہزارنیوکلیئر پاور پلانٹوں سے بڑھ کر توانائیاں رکھتا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ اربابِ صحافت نے نامساعد اور مشکل ترین حالات میں بھی مثبت اور تعمیری تنقید کے ذریعے اربابِ حکومت کی رہنمائی کا فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دیا ہے۔ ایک حقیقی فلاحی اور جمہوری ریاست کے ذمہ داران، اربابِ صحافت کی مثبت اور تعمیری تنقید پر معترض ہونے کے بجائے، ہمیشہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔یہ تو طے ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی مقبولیت کے باوجود پرنٹ میڈیا کی اہمیت اور اثر پذیری سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ صحافت کو پابند سلاسل کرنے یا اس کی کوشش کرنے والے حکمرانوں کو عوام پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ ایک سچے صحافی کی تحریر حقائق و حالات کی عکاس و نقاش ہوا کرتی ہے۔ وہ زمینی حقائق اور معروضی حالات سے محض کسی دربار یا حاکم کی خوشنودی کے لیے چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ آزاد صحافت ہی صحت مند معاشرے کی ضامن ہے۔ہر با شعور شہری تسلیم کرتا ہے کہ معاشرے کی ترقی کے عمل میں جمہوریت اورپریس لازم و ملزوم ہیں۔ جیسے جیسے آزادیٔ صحافت و اطلاعات کا عمل گہرائی اختیار کرے گا، اس سے جمہوریت اور سیاسی ادارے مضبوط ہوں گے اور بیوروکریسی مزید ذمہ دار بن جائے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک مثالی جمہوری حکومت کی سب سے بڑی خوبی یہی تصور کی جاتی ہے کہ اسکے زیر سایہ صحافت و اطلاعات کی آزادی کا عمل اور اس کے امکانات وسیع تر ہوتے چلے جائیں۔ریکارڈ گواہ ہے کہ آزادیٔ صحافت و اطلاعات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنیوالی ہرریاستی مشینری کو آخر کار آزادیٔ صحافت کی جنگ لڑنے والے نہتے سپاہیوں کے سامنے ہتھیار پھینکنا پڑے۔ مہذب اور ترقی یافتہ جمہوری معاشروں اور مملکتوں میں کسی بھی ایسی حکومت یا حکمران کو جو آزادیٔ صحافت وحریتِ اطلاعات کی راہیں مسدود کرنے کیلئے کالے قوانین کا سہارا لیتا ہے، انسانی تاریخ کے دامن کا سیاہ دھبہ تصور کیا جاتا ہے۔ ہر مہذب جمہوری حکومت کے روحِ جمہوریت سے آشنا حکمران پریس کی آزادی پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ آزاد پریس نے احتسابی اداروں کے قیام سے قبل بھی وطنِ عزیز میں محتسب کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ جب تک کسی ملک کے صحافیوں کا دامن آلودۂ حرص و ہوس نہیں ہوتا، کسی بھی ریاستی ادارے کو بے اعتدالی، بے ضابطگی اور کج روی کی شاہراہ کا بے دھڑک مسافر بننے کی جرأ ت نہیں ہوتی۔ اس تناظر میں معاشرے میں مختلف ریاستی اداروں میں بدعنوانیوں، بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا وجود حقیقی حریت پسند صحافیوں کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صحافی بے غرض اور بے طمع ہو تو اس کا قلم آزاد اور رائے بے باک ہوتی ہے لیکن جب وہ پیش پا افتادہ مفادات کی خاطر اپنے قلم اور ضمیر کو طاقتور اور بارسوخ طبقات کے ہاں رہن رکھ دیتا ہے تو اخبارات و جرائد کے صفحات پر چیختی، چلاتی اور چنگھاڑتی سچائیاں بھی حلقۂ قارئین کو متاثر کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔آزاد صحافت ہی حقیقی محتسب کا کردار ادا کرتی ہے۔ آزادیٔ صحافت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست کے دیگر تمام اداروں کے دست و پا باندھ کرمعاشرے اور مملکت میں صرف اور صرف صحافیوں ہی کو کھل کھیلنے کے مواقع ارزاں کر دئیے جائیں۔
آزاد صحافت بھی بعض اقدار و روایات اور ضابطۂ ہائے اخلاق کی پابند ہوتی ہے اور اسے ان کا پابند ہونا چاہیے۔ پاکستان ایسی نظریاتی مملکت میں مادر پدر آزاد صحافت کی کسی بھی طور حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کی جانی چاہیے۔ دنیا کے وہ ممالک جہاں پریس کو بے پناہ آزادیاں عطا کی گئی ہیں، وہاں بھی جب کوئی ابلاغیاتی ادارہ ،جریدہ یا اخبار مسلمہ حدود و قیود کو پامال کرنے کی سعی مذموم کرتا ہے تو شہری، سیاسی، سماجی اور دانشور حلقوں کی جانب سے اس کے اس اقدام کو مذموم تصور کیا جاتا ہے۔ ذمہ دار، محب وطن اور فرض شناس صحافی مادر پدر آزاد صحافیوں کی نام نہاد لیکن مبنی بر مفاد بے باکیوں کو آزادیٔ صحافت کیلئے صحافت پر ٹوک لگانے والے کالے قانون ہی کی طرح مضرت رساں اور خطرناک سمجھتے ہیں۔
یہ حقیقت ماورائے اشتباہ و مبالغہ ہے کہ آزادی کی منزلِ مراد کو قریب تر لانے میں سیاستدانوں سے کہیں زیادہ صحافت دانوں نے قربانیاں دی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد بھی حریتِ فکر اور جرأتِ اظہار کے نمائندہ صحافیوں نے اپنے پیش روئوںکے نقوشِ قدم پر چلنا ترک نہ کیا۔ روشنی کے ان پرستاروں نے جب بھی مطلعِ حق کی جانب جبر، ظلم،فسطائیت اور آمریت کے سایوں کو سحاب در سحاب اور خیل در خیل بڑھتے دیکھا تو اس شبِ تاریک میں وہ تاریکیوں کو زائل اور کافور کرنے کیلئے اپنی ہتھیلیوں پر جرأت اظہار کے سورج لے کر نکلے۔ آمروں نے اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں انہیں طوق و قفس کے خارزاروں پر گھسیٹا۔ ان میں سے بعض نے تو اپنی جان دیدی لیکن کلمۂ حق کے پرچم کو سرنگو ں نہ ہونے دیا۔ حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کے ان عظیم پرچم برداروں کو اپنا رول ماڈل تصور کرنیوالے میڈیا کے کارکن آج بھی آزادیٔ صحافت کے تحفظ ، صحافیوں کے حقوق کے دفاع اور قلم کی آزادی کو برقرار رکھنے کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔