پاکستان کی خارجہ پالیسی: خدشات، مضمرات اور امکانات

چین کے علاوہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو کسی طور خوشگوار نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ حکومت نے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کے متعلق جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے اسے ’’آبیل مجھے مار‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔ 
9/11 کے واقعہ کے بعد جنرل مشرف نے جو پالیسی اختیار کی وہ معروضی حالات کے مطابق درست تھی۔ کوئی بھی حکومت ہوتی ایسا ہی کرتی! اگر کوئی بیدار مغز حکمران ہوتا تو وہ ''Do More'' کے مقابلے میں "Give More"کا تقاضہ کرتا۔ ضیاء الحق نے جب ''Peanuts'' کہہ کرامریکی امداد ٹھکرائی تھی تو کارڈ کو مونگ پھلی کی بجائے ’’کاجو‘‘ دینے پڑے تھے، خان صاحب کا ایک ''Fait Accompli''کے بعد یہ کہنا کہ میں ہوتا تو ’’یہ کر دیتا، وہ کر دیتا‘‘ قطعاً غیر ضروری تھا۔
 اسی طرح یہ کہنا کہ پاکستان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کر دیا ہے، محض ڈھنگ ، شوخی اور شرارت ہے۔ جب امریکہ افغانستان  سے نکل گیا ہے تو اسے اڈوں کی کیا ضرورت ہے؟ وہ سمندروں سے افغانستان کے جس ٹارگٹ کو چاہے نشانہ بنا سکتا ہے لیکن اس کی نہ تو نوبت آئے گی اور نہ ضرورت ہے! 
یہ درست ہے کہ قوموں کو عزت کے ساتھ باوقار انداز میں رہنا چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب دورِ غلامی نہیں رہا۔ سوپر پاور کی ہر بات نہ تو مانی جا سکتی ہے اور نہ ہر جنبش ابرو پر سرتسلیم خم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے مضبوط معیشت ضروری ہے۔ وہ جو انگریزی زبان کا محاورہ ہے Baggars are not the Chooserجب آپ کو بجٹ بیلنس کرنے کے لیے IMF اور ورلڈ بینک کی امداد کی ضرورت پیش آئے گی۔ فوجی امداد  کے لیے مغرب کی طرف دیکھنا پڑے گا تو پھر کسی نہ کسی حد تک ان کے مطالبات پر بھی غور کرنا ہو گا۔ 
عمران خان کا ’’ہل مِن مبارز‘‘ کا انداز نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کسی نہ کسی مرحلے پر حکمرانوں کے خون میں کھولن اٹھتی رہی ہے۔ ایوب خان کو ''Friends not masters''لکھنے کے کچھ عرصہ بعد ہی رخصت ہونا پڑا۔ بھٹو کو جوہری طاقت بننے کی کڑی سزا دی گئی۔ یہ الگ بات کہ اس کی موت قوم کی حیات بن گئی۔دو افغان جنگوں کی وجہ سے امریکہ پاکستان کو جوہری طاقت بننے سے نہ روک سکا۔ ہندوستان کے مذموم قدم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رُک گئے۔ وہ ''Mad'' کا مطلب بخوبی سمجھتا ہے۔ 
ضیاء الحق نے جب افغان جنگ کے بعد ’’پر پُرزے ‘‘ نکالنے شروع کئے تو فضائی حادثے کا شکار ہو گیا۔ اب عمران خان میدان عمل میں آ گیا ہے
؎دام ہر موج میں ہے حلقہ صدکام نہنگ 
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک 
F.A.T.F اور IMF کی کڑی شرائط کی تلواریں ’’Sword of democles ‘‘ کی طرح ہمارے سر پر لٹک رہی ہیں۔ 
روس سے ’’دوستانہ‘‘ تعلقات رکھنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ صرف دورے کی ٹائمنگ غلط تھی۔ ادھر روسی فوجیں یوکرائن کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ادھر خان صاحب کو’’ گارڈ آف آنر‘‘ پیش کیا جا رہا تھا۔ 5,400 میزائل تو کجا خان صاحب فریب وعدہ فردا، بھی نہ حاصل کر سکے۔ مغرب نے اس عمل کو درست نہیں سمجھا۔ اگر موتوں کے پیش نظر Enlightend self ہوتا ہے تو پھر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہماری تمام تر تجارت اہل مغرب کے ساتھ ہے۔ لاکھوں پاکستانی وہاں کام کرتے ہیں۔ اگر انہیں خدانخواستہ واپس آنا پڑا تو کیا ہو گا؟ 
روس کے ساتھ نہ تو ہماری قابل ذکر تجارت ہے اور نہ کثیر تعداد میں وہاں اہل وطن ہیں۔ یہ کہنا کہ ہم روس سے گندم منگواتے ہیں، بودی دلیل ہے۔ کیا روس ہمیں مفت گندم دیتا ہے؟ کیا دنیا میں کسی اور ملک سے یہ جنس دستیاب نہیں ہے؟ ویسے بھی ایک زرعی ملک کے لیے باہر سے گندم درآمد کرنا اگر باعثِ شرم نہیں تو قابل افسوس ضرور ہے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن