گیس کمپنیوں کاگردشی قرضہ1500ارب تک پہنچ چکا ،قائمہ کمیٹی میں انکشاف

May 31, 2022


اسلام آباد (نا مہ نگار)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گیس کمپنیوں کاگردشی قرضہ1500ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ،جبکہ پیٹرولیم ڈویژن کے حکام نے کہا ہے کہ ملک میں گیس کی کمی اور گردشی قرضے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے ، وزیر مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کی مشاورت سے کریں گے ،ا یران سے بہت تیل پاکستان سمگل ہو رہا ہے، سابق وزیر توانائی نے روس سے تیل خریداری کیلئے ایک خط ضرور لکھا تھا، حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرتی ہے ۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کا اجلاس سینیٹر محمد عبدالقادر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں سینیٹر فدا محمد، سینیٹر رخسانہ زبیری، سینیٹر افنان اللہ خان، سینیٹر شمیم آفریدی، سینیٹر سیف اللہ ابڑو وزیر مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک، سیکریٹری وزارت پیٹرولیم، چیئرمین اوگرا مسرور خان، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری،سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام اور دیگر سینئر افسران نے شرکت کی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عبدالقادر نے استفسار کیا کہ گیس کی قیمتوں کے تعین اور اس کی تقسیم کا معیار کیا ہے؟ ان کا خیال تھا کہ اس سلسلے میں گھریلو صارفین کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ گھریلو صارفین سے متعلقہ شعبے کے مطابق سستی شرحوں اور صنعتی یونٹس پر فیس وصول کی جائے۔ حکومت پر بوجھ کم کرنے کے لیے سی این جی سیکٹر کو اپنے طور پر گیس درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گیس کی تقسیم کو سیکٹر کے لحاظ سے ترجیح دی جانی چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی نے ریمارکس دیئے کہ کھاد کی صنعت کو براہ راست سبسڈی دیرپا نہیں ہے۔ سینیٹر محمد عبدالقادر نے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جو اس وقت 1500ارب روپے ہے۔ سینیٹر محمد عبدالقادر نے اس بار بار آنے والے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ کمیٹی نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(کے سی سی آئی)کو گیس کی فراہمی کے حوالے سے درپیش مسائل پر بھی غور کیا۔ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر نے کمیٹی کو صنعتکاروں کی شکایات سے آگاہ کیا جس میں صنعتی شعبے کو گزشتہ چار ماہ سے گیس کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ صدر کراچی چیمبر آف کامرس محمد ادریس نے بتایا کہ سوئی سدرن کمپنی کراچی کی صنعتوں کو پانچ ماہ سے گیس نہیں دے رہی، سیکرٹری صاحب کراچی آئے تھے ہماری ساری باتوں سے اتفاق کیا،سیکرٹری صاحب بات مانتے ہیں لیکن عملدرآمد نہیں کرتے، سیکرٹری پٹرولیم اجلاس کے دوران اٹھ کر چلے گئے سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ مجھے ایک اہم میٹنگ میں جانا ہے رک نہیں سکتا، ر کراچی چیمبر آف کامرس  کے وفد نے سیکرٹری پٹرولیم کے جانے پر اظہار برہمی کیا انہوں نے کہا کہ ہم کراچی سے اس میٹنگ کیلئے آئے ہیں، سیکرٹری پٹرولیم اجلاس میں نہیں ہوں گے تو ہم اپنی بات کس کو بتائیں، چیئرمین کمیٹی عبدالقادرنے کہا کہ وزیرمملکت اجلاس میں موجود ہیں آپ اپنی بات کریں،چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا کہ موجودہ معاشی انحطاط کی بڑی وجہ درآمدی اور برآمدی قدر میں فرق ہے اور اس تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے ہمیں مراعات دینے اور اپنی مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈویژن سینیٹر مصدق ملک سے مزید درخواست کی کہ وہ کراچی کے صنعتکاروں کے تحفظات پر توجہ دیں اور مناسب حل نکالیں۔ اجلاس کے دوران رکن کمیٹی سیف اللہ ابڑو چیئرمین کمیٹی کے رویے پر دل برداشتہ ہو گئے،انہوں نے کہا کہ چیئرمین صاحب میں بات کر رہا ہوں آپ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں، جب یہ رویہ ہو گا تو کیا فائدہ بات کرنے کا؟ میں ایسے غیر سنجیدہ ماحول میں نہیں بیٹھ سکتا،سینیٹر سیف اللہ ابڑو اجلاس چھوڑ کر چلے گئے،رکن کمیٹی سینیٹر فدا محمد نے بھی کہا کہ میں بھی دیکھ رہا ہوں آپ آدھے گھنٹے سے فون استعمال کر رہے ہیں،جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ میں کسی کا ملازم تو نہیں کہ موبائل استعمال نہ کروں، یہاں وزیر، سیکرٹری، اراکین سب فون استعمال کرتے ہیںکمیٹی نے متعلقہ قواعد پر بھی تبادلہ خیال کیا، جو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ہائی آکٹین بلینڈنگ کمپوننٹ (HOBC97)کو ملانے کی اجازت دیتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈویژن سینیٹر مصدق ملک نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت صرف ان مصنوعات کو ریگولرائز کرتی ہے جو بڑے پیمانے پر عوام استعمال کرتے ہیں جیسے RON 92اور HOBC97اس زمرے میں نہیں آتے۔ سینیٹر محمد عبدالقادر نے وزارت کو مشورہ دیا کہ وہ کم از کم اس نئی مصنوعات کی صداقت کی جانچ کرے۔ایکسپلوسیو ڈپارٹمنٹ کے معاملے پر غور کرتے ہوئے لوگوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی جائیدادیں خاص آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو کاروبار کے مقصد کے لیے لیز پر دیں۔ ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نے کمیٹی کو بتایا کہ انفرادی شخص پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اور ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ صرف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پٹرول پمپ کا لائسنس دیتا ہے۔ سینیٹر محمد عبدالقادر نے زور دیا کہ اس کا مقصد تاجروں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے نہ کہ رکاوٹیں۔وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے بتایا کہ روس کے ساتھ پاکستان نے تیل خریدنے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا، ایران سے بہت تیل پاکستان سمگل ہو رہا ہے، سابق وزیر توانائی نے روس سے تیل خریداری کیلئے ایک خط ضرور لکھا تھا، حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو ریگولیٹ کرتی ہے،کوئی مہنگی کوالٹی کا تیل ڈلوانا چاہے تو اس کی مرضی ہے،مہنگی کوالٹی کے فیول کی قیمت بھی ڈی ریگولیٹ ہے، اس بات کو یقینی بنائیں گے کوئی 92رون پٹرول 97رون کا کہہ کر نہ فروخت کرے، ہم پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں پٹرول پمپس کے درمیان مسابقت چاہتے ہیں،  چیئرمین اوگرا مسرور خان نے کہا کہ گیس کی قیمت میں اضافہ نہ کرنے سے کمپنیوں پر دباو بڑھا،سیکرٹری پٹرولیم علی رضا بھٹہ نے کہا کہ اب قیمتوں کے تعین کے حوالے سے قوانین میں ترامیم ہو چکی ہیں، حکومت نے اوگرا تجویز پر قیمت نہ بڑھائی تو چالیس دن بعد گیس کی قیمت خود بخود بڑھ جائے گی،وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک  نے کہا کہ اس وقت درآمدی ایل این جی کی قیمت 22سے 24ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے،سبسڈی دینے کی حکومتی طاقت ختم تو نہیں لیکن محدود ہو گئی ہے،سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ  کوشش ہوتی ہے کہ غریب آدمی پر مہنگائی کا کم سے کم بوجھ پڑے گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 15سو ارب روپے ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاور اور گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 4ہزار ارب کے قریب پہنچ چکا ہے، ایسی صورتحال میں ملکی معیشت کیسے چلے گی،،کمیٹی نے میٹر ٹمپرنگ اور اوور بلنگ کے معاملے پر عوامی عرضداشت پر غور کیا جس کا حوالہ معزز چیئرمین سینیٹ نے دیا تھا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آزاد تھرڈ پارٹی کی خدمات حاصل کی جائیں جس سے اتھارٹی کو سائنسی طریقوں سے چوری کا پتہ لگانے میں مدد ملے گی۔

مزیدخبریں