قارئین کرام ان دنوں ملک میں نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے مشاورت جاری ہے۔ گذشتہ کئی روز سے خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ اس حوالے سے جہانگیر ترین خاصے متحرک ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف چھوڑ کر جانے والے سیاست دان جہانگیر ترین سے مکمل رابطے میں ہیں اور اب علیم خان بھی میدان میں نظر آ رہے ہیں۔ علیم خان کی رہائش گاہ پر جہانگیر ترین اور علیم خان کی ملاقات میں نئی سیاسی پارٹی بنانے سے متعلق مشاورت ہوئی ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ آنے والے چند روز اس حوالے سے بہت اہم ہیں۔ اس وقت ملک میں نئی سیاسی جماعت کا شور ہے تو سوچا آپ کے سامنے گیارہ فروری کا سائرن رکھا جائے۔ فروری کا یہ کالم صرف ایک یاددہانی کے لیے ہے کیونکہ ہماری سیاست میں زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنا بہت معمولی بات ہے۔ اگر ہم زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر سیاست اور فیصلے کریں تو ملک و قوم کہ خدمت زیادہ بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو سب سے بڑا نقصان بھی زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ انہوں نے حقیقت کو ماننے سے انکار کیا اور اس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں۔ اتنے بڑے دھچکے سے بھی انہوں نے وہ سبق نہیں سیکھا جس کی ضرورت تھی۔ بہرحال اس پر دوبارہ بات ہو گی۔ ابھی آپ گیارہ فروری 2023 کے سائرن کا مطالعہ کریں۔
"ملک میں سیاسی افراتفری ہے، سیاسی قیادت کی گرفتاریاں اور ضمانتیں جاری ہیں اور سیاست دانوں کا ایک جماعت سے دوسری جماعت میں جانا شروع ہو چکا ہے۔ سیاست دان اپنی جماعت چھوڑ کر کسی نئی سیاسی جماعت میں جا رہے ہیں یا پھر بہت سے سیاست دانوں کی اپنی ہی سیاسی جماعت میں غیر فعال، غیر متحرک ہونے کی اطلاعات بھی مسلسل سامنے آرہی ہیں، ایسی اطلاعات سامنے آنے سے مراد عوامی سطح نہیں ہے یہ تو خواص کی سطح کی بات چیت ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اسے عوامی سطح پر بھی رکھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سیاسی مخالفین کو پریشان کرنا یا پھر خود کو باخبر ثابت کرنا یا پھر کسی کا راستہ روکنا تو ہو سکتا ہے لیکن یاد رہے ایسی کاروائیوں اور بیانات سے کسی کا جانا رکتا نہیں ہے۔ جہاں تک تعلق ان معاملات کو عوامی بنانے کا ہے تو اس حوالے سے گورنر خیبر پختون خواہ کا بیان ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما خیبر پختون خواہ کے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک کے بارے یہ بریکنگ دی ہے کہ وہ کسی اور سیاسی جماعت کی طرف سے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ پرویز خٹک کی کس سے بات چیت ہو رہی ہے اور کس سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ اسی طرح شیخ رشید نے بھی ایک سیاسی جماعت بنانے کے حوالے سے گفتگو کی ہے لیکن لیکن شیخ رشید صاحب کو شاید یہ زعم ہے کہ وہ اس سیاسی جماعت میں بھی فٹ ہو سکتے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو کیونکہ جس سیاسی جماعت کے بارے میں خواص کی سطح پر بات ہو رہی ہے وہاں یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے کہ کون سے لوگ اس سیاسی جماعت کا حصہ ہو سکتے ہیں یا اس نئی سیاسی جماعت کی جو ابھی تک صرف ڈرائنگ رومز کی حد تک، بات چیت کی حد تک، مشاورت کی حد تک ہے اس میں کس سوچ کے لوگ لوگ سینئر، یا ٹاپ لیڈرشپ ہو سکتی ہے، کون سے لوگ اہم ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ یہ بات طے ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہو گی۔
اس نئی سیاسی جماعت کا کردار نئی حکومت بنانے میں بہت اہم ہو گا کیونکہ اس نئی سیاسی جماعت میں شامل ٹاپ لیڈرشپ اور اس میں شامل ہونے والے لوگ وہ ہوں گے جو ناصرف اپنے حلقے جیت سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ عوامی سطح پر بھی مقبولیت اور اچھی شہرت رکھتے ہوں۔ اس لیے شیخ یا اس طرح کے غیر سنجیدہ اور اس طرح کے تمام سیاستدانوں سے دور رہنا چاہیے۔ وہ جو ہر لمحہ اپنی سوچ بدلتے ہیں، ہر لمحہ نفرت کی سیاست کرتے ہیں، ہر لمحہ ملک میں انتشار پھیلانے کی بات کرتے ہیں، ہر لمحہ جلاو گھیرائو اور عوامی جذبات کو ابھارنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے۔ ایسے سیاستدان جنہیں کوئی کام نہیں آتا وہ صرف الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ میڈیا پر زندہ رہتے ہیں۔ سادہ لوح، معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیل کر ایسی چیزیں بیان کرتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے ناصرف ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشی عدم استحکام میں بھی شدت آتی ہے۔ عوامی سطح پر بے چینی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اس لیے وہ تمام نام آیا جو اس نئی سیاسی جماعت میں اہم کردار ادا کریں گے اور جن لوگوں سے ان کی بات چیت اور مشاورت جاری ہے ان سب سے بھی گذارش ہے کہ بھلے کم لوگ اپنی سیاسی جماعت میں رکھیں یا اس کا دائرہ کار بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح نہ ہو ہو لیکن اس میں شامل افراد ایسے ہوں کہ وہ اپنی قابلیت، اہلیت کی بنیاد پر تعداد میں کم ہونے کے باوجود بڑی سیاسی جماعتوں پر بھی حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ پاکستان کو اس وقت ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ناصرف مخلص ہوں بلکہ جرات انکار اور سب سے بڑھ کر ملکی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت اور پاکستان کے عوام کے مسائل کو حل کرنے کی اہلیت اور قابلیت بھی رکھتے ہوں۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سیاست دان کم از کم گذرے پندرہ برس کے دوران حکومت میں رہتے ہوئے ملکی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اور عوام کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کھڑی کی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ملک کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔ عام آدمی کی زندگی اس حد تک مشکل ہو چکی ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے بھی قابل نہیں رہا، چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں مریض ادویات کی قلت کی وجہ سے تکلیف میں ہیں۔ کوئی امید یا کوئی روشنی کسی بھی جگہ سے نظر نہیں آرہی۔ مختلف سیاسی جماعتوں میں اہم کردار ادا کرنے والے لوگ آج قومی سطح پر وہ گفتگو کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو انہیں حکومت میں رہتے ہوئے کرنے کی ضرورت تھی۔ میں کسی ایک شخص کا ذکر تو نہیں کرتا اور نہ ہی نام لیتا ہوں لیکن گذشتہ چند ہفتوں کے دوران مختلف جماعتوں میں اہم کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنمائوں کی بات چیت سب کے سامنے ہے اور وہ اپنے خیالات عوام کے سامنے رکھتے ہوئے بہتر پاکستان کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ بہت سے ایسے سیاستدان ہیں جو گذشتہ چند ماہ سے سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں اور بہت سے ایسے سنجیدہ سیاستدان ہیں جو حالات اور منظر نامہ بدلنے کے منتظر ہیں۔ اس حوالے سے مزید کام آگے بڑھتا ہے
تو بہت سے چہرے اپنی سیاسی جماعتیں چھوڑ کر ایک نئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لوگ، پاکستان کے ووٹرز اس سنجیدہ سیاسی قیادت کو تسلیم اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اس نئے خیال کو پسند کرتے ہیں یا پھر اس پر منفی رد عمل دیتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے ایک ایسی سیاسی جماعت جس کی اعلی قیادت میں میں وہ تمام لوگ شامل ہوں جن کی نظر میں اور جن کے اہداف میں صرف اور صرف پاکستان سب سے پہلے نظر آئے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی ترقی، پاکستان کی فلاح ہو۔ ایسا نہیں کہ ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہماری مشکلات کم نہیں ہو سکتیں، سب کچھ ہو سکتا ہے بات صرف لگن، جذبے، نیت، قابلیت اور صلاحیت کی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں یہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہمارے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ انسانی معیار کا ہے اگر معیاری انسانوں کا ہے اگر اس نئی سیاسی جماعت کے سنجیدہ، تجربہ کار اور قابل افراد کو موقع ملتا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔"
آخر میں ساغر صدیقی کا کلام
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں توکیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں توکیا تماشا ہو
آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں توکیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں توکیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں توکیا تماشا ہو