صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخطوں کے ساتھ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ 2023ء کا گزشتہ روز گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ اس نئے قانون کے تحت آئین کی دفعہ 184‘ شق 3 کے تحت فیصلوں پر نظرثانی کی اپیل دائر ہو سکے گی جو 60 دن کے اندر اندر دائر کی جاسکے گی جس کی سماعت بڑے بنچ میں ہو گی۔ نئے قانون کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ان فیصلوں اور رولز پر بھی ہوگا جو یہ قانون وضع ہونے سے پہلے صادر ہوئے۔ اس نئے ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کے فیصلوں کیخلاف بھی اپیل دائر کی جا سکے گی اور فریق کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے بقول سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو اس قانون سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ قانون کسی ایک شخص کیلئے نہیں ہے تاہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا میاں نوازشریف کو فائدہ ہوگا۔ انکے بقول اس نئے قانون سے پہلے ہی میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین اپنی تاحیات نااہلیت کی سزا کیخلاف نظرثانی کا حق استعمال کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے مابین پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال کی جانب سے اس معاملہ کا ازخود نوٹس لینے سے ہی کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی تھی اور پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات ایک تین رکنی کمیٹی کے سپرد کرنے سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ منظور کیا جس کے نافذالعمل ہونے سے پہلے ہی چیف جسٹس نے عدالت عظمیٰ کا آٹھ رکنی بنچ تشکیل دیکر معطل کر دیا۔ نتیجتاً پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے نظر آئے اور ازخود اختیارات کے استعمال پر فاضل چیف جسٹس کو اپنے ساتھی ججوں کی جانب سے بھی سخت تحفظات کا سامنا کرنا پڑا۔ متذکرہ ایکٹ کیخلاف آٹھ رکنی بنچ کا حکم امتناعی ابھی برقرار ہے تاہم صدر مملکت کی منظوری کے بعد اب یہ ایکٹ روبہ عمل ہوگیا ہے جس کے تحت اب فاضل چیف جسٹس کے ازخود اختیارات سے متعلق فیصلوں پر نظرثانی کی اپیل دائر ہو سکے گی۔ فاضل چیف جسٹس نے بھی بادی النظر میں اس نئے قانون پر صاد کرلیا ہے جنہوں نے گزشتہ روز پنجاب الیکشن کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی اور ریمارکس دیئے کہ سیاسی درجہ حرارت معیشت اور امن کیلئے اچھا نہیں‘ سیاسی قیادتیں فاصلے کم کریں۔ فاضل چیف جسٹس کا بلاشبہ یہ صائب مشورہ ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اب پارلیمنٹ اور عدل گستری کے معاملات اپنے اپنے قانونی اور آئینی دائرہ کار میں خوش اسلوبی سے چلتے رہیں گے۔ بے شک تمام آئینی ریاستی ادارے سسٹم ہی کا حصہ ہیں اس لئے سسٹم کو کوئی گزند نہ پہنچنے دینا ہی دانشمندی اور وقت کا تقاضا ہے۔