پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے بالکل درست کہا ہے کہ ملک کے عوام اور پاک فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ سوموار کو کوئٹہ گیریژن کے دورے کے موقع پر انھوں نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کے افسران سے خطاب کیا اور اس دوران انھوں نے روایتی، غیر روایتی اور ففتھ جنریشن وار فیئر کے لیے آپریشنل تیاریوں پر زور دیا۔ آرمی چیف کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج ہمیشہ پاکستان کے بہادر اور غیور عوام کی مقروض ہیں جنھوں نے ملک کے طول و عرض میں مسلح افواج سے اپنی منفرد محبت کے اظہار کے لیے یکجہتی کے جلسوں اور ریلیوں کا اہتمام کر کے دشمن کے مذموم عزائم کا منہ توڑ جواب دیا۔ جنرل عاصم منیر نے مزید کہا کہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اندرونی عناصر اور بیرونی قوتوں کے درمیان گٹھ جوڑ پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ پاک فوج دنیا کی مضبوط ترین افواج میں سے ایک ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور پاکستانی عوام کی حمایت کی وجہ سے اسے شکست دینا ممکن نہیں۔
پاکستان میں عوام اور فوج کے رشتے کا مضبوط ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ویسے تو مختلف مواقع پر عوام کی فوج سے محبت کا اظہار ہوتا رہا ہے لیکن 1965ء میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ کے دوران جس طرح عوام نے خود کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا کر کے دفاعِ وطن کے لیے یک جہت اور متحد ہونے کا ثبوت دیا اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ 9 مئی کے تکلیف دہ واقعات کے بعد بھی ملک کے مختلف شہروں میں عوام نے جس طرح فوج کے ساتھ یکجہتی کے لیے مظاہرے کیے اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام اور فوج کا باہمی رشتہ بہت مضبوط ہے اور ہمارے دشمن اس رشتے کے خلاف جتنی بھی سازشیں کررہے ہیں وہ ناکام ہی ہوں گی۔ ملک دشمنوں کا اس رشتے کے علاوہ اہم ترین ہدف ملکی معیشت ہے جس کی حالت اس وقت بہت خراب ہے اور یہ وہ معاملہ ہے جس کے لیے حکومت اور سیاسی قیادت نے مل کر کردار ادا کرنا ہے کیونکہ معیشت کے معاملات میں بگاڑ کی ایک بڑی اور اہم وجہ ملک میں پھیلا ہوا سیاسی عدم استحکام ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے سوموار کو سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معیشت اور جس طرح کے حالات اس کو چلانے کے لیے چاہیے ہوتے ہیں ان کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سمجھ بوجھ کافی محدود ہے اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لانے میں اپنے کلیدی کردار کو بھی وہ بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈیل کو توڑ کر پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی عمران خان کی خواہش ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کی نہ رکنے والی مزاحمت کی سیاست، لانگ مارچ اور دھرنوں سے ملک میں سیاسی بحران پیدا کرکے ملکی معیشت پر منفی اثرات ان کوششوں کے علاوہ ہیں، حتیٰ کہ پاکستانی سرمایہ کار بھی اس طرح کی بے یقینی کی صورتحال میں جسے عمران خان نے دانستہ طور پر پیدا کیا، اپنا سرمایہ لگانے سے گریز کریں گے۔ صرف 9 مئی کے واقعات ہی نے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور یہ ان کے ناپاک عزائم کا کھلم کھلا ثبوت ہے۔
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیں ابھی بھی معاشی مشکلات کا سامنا ہے مگر ہم الحمدللہ بحرانی کیفیت سے نکل چکے ہیں۔ ان معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے حکومت ٹھوس معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سطح پر اقدامات کر رہی ہے۔ ہم دوست اور شراکت دار ممالک سے مل کر جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں مالی خلا کو پورا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ درآمدات کو کم کرنا اور افراط زر میں کمی اصل چیلنجز ہیں جن سے اس وقت ہی صحیح معنوں میں مقابلہ کیا جا سکتا ہے جب ہم برآمدات، سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافے کو معیشت ٹھیک کرنے کے بنیادی عناصر بنائیں گے اور ہماری تمام تر کوششیں و توانائیاں اس ہدف کے حصول میں کاربند ہیں۔ آئندہ بجٹ کے سلسلے میں سب سے اہم موضوع ریلیف اقدامات ہیں جن کی نگرانی وزیراعظم شہباز شریف نے خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دیدی ہے جس کی سربراہی وزیر دفاع خواجہ آصف کو سونپی گئی ہے۔
وزیراعظم کے ٹوئٹر پر جاری بیان کا تقریباً آدھا حصہ عمران خان سے متعلق تھا اور یہی اس ملک کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے۔ خود عمران خان بھی جب وزیراعظم بنے تھے تو انھوں نے پونے چار برس کا عرصہ اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے گزار دیا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ماضی کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے اس روش کو ترک کرے اور حکومت سنبھالنے والے افراد پچھلی حکومتوں یا سیاسی مخالفین کو مسلسل تنقید اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کام پر توجہ دیں جس کے لیے انھیں مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ بگڑے ہوئے معاشی حالات میں حکومت کی ساری توجہ ان اقدامات پر ہونی چاہیے جن کے ذریعے معیشت کو بہتر اور ملک کو مضبوط اور توانا بنایا جاسکتا ہے۔ اگر حکمران سارا وقت اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے رہیں گے اور انھیں مختلف نوعیت کے مقدمات میں پھنسانے کی کوششوں میں مصروف ہوں گے تو پھر ان کی توجہ اہم قومی مسائل پر ہرگز مرکوز نہیں ہوگی جس کی قیمت ملک اور عوام دونوں ادا کریں گے۔