پاکستان کے موجودہ بدترین سیاسی ، معاشی، مالیاتی بحران اور مہنگائی کے طوفان سے سب سے زیادہ غریب ، متوسط طبقہ اور بزرگ شہری متاثر ہوتے ہیں۔یہ تو بجٹ کی آمد کا اعلان سُن کر تھر تھر کانپتے لگتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا ہر سالانہ بجٹ گزشتہ سالوں کے بجٹ کے مقابلے میں زیادہ عوام دشمن ہوتا ہے اور اس میں "ریلیف" نام کی کوئی چیز ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ ویسے تو بجٹ "طبل" بجنے سے پہلے ہی اشیائے ضرور یہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ "نایاب "بھی ہو جاتی ہیں حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی "چاندی"ہو جاتی ہے لیکن عوام کا کوئی بھی پُرسانِ حال نہیں ہوتا ۔ اب کیونکہ مالی سال 2023-24 کے صوبائی اوروفاقی بجٹ کی آمد آمد ہے اس لیے تما م عوام کے ساتھ ساتھ بزرگ شہریوں کی پریشانیوں اور مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے حکومت کے اپنے ادارے شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10ماہ کے دوران مہنگائی کے نئے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں عام ادویات اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 35سے 40فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور ابھی ادویہ سازی کے ادارے قیمتوں میں مزیداضافہ کرنے کا تسلسل سے مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ بڑھاپے میں ادویات بزرگوں کی خوراک کا لازمی حصہ ہیں اسکے باوجود ادویات کی قیمتوں میں معقول حد تک کمی لانے کی بجائے اس کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
پاکستان کا ہر سیاست دان "انتخابات کے موسم "بزرگ شہریوں کے قیمتی ووٹ حاصل کرنے کیلئے دن رات اِنکے گھروں کے چکر لگاتے رہتے ہیں اور اِنکے مسائل کو حل کرنے اور فلاح و بہبود کیلئے انہیں ہمیشہ طرح طرح کے "سہانے سبز باغ" دکھاتے ہیں اور "انتخابی موسم"کے گزرتے ہی عوام کے یہ جھوٹے ہمدرد " حسب معمول غائب ہو جاتے ہیں کیونکہ انکے سب وعدے نعرے بازی تک ہی محدودہوتے ہیں ہم سب کو علم ہے کہ مغربی معاشرہ جسے ہدف تنقید بنانا ہمارا دلچسپ مشغلہ ہے وہاں بزرگ شہریوں کو ہر طرح کی سہولتیں ریاست کی طرف سے ہی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں جب "بزرگی کا ٹھپہ" لگ جاتا ہے تو پھر بزرگ "اس بے رحم معاشرے کے سہارے زندگی کے رہے سہے دِن گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جو بزرگ سرکاری اور نجی اداروں میں نہیں ہوتے اپنا کاروبار کرتے ہیں وہ اپنے اپنے انداز میں اچھی زندگی کسی حد تک گزار لیتے ہیں لیکن جن پر 60سال کی عمر پر ریٹائرمنٹ کا ٹھپہ"لگ جاتا ہے اُن کے مسائل ہر گزرتے دِن کے ساتھ مسلسل بڑھتے ہی جاتے ہیں پنشن کے کاغذات کی تیاری سے پنشن کے حصول تک اُسے ہر مرحلے پر "بزرگی کے باوجود "رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے حالانکہ قواعدو ضوابط کے تحت اُسے ریٹائرمنٹ کے دن ہی پنشن کے تمام بقایا جات /گریجویٹی وغیرہ ہر صورت میں مل جانے چاہیے ۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایسا نہیں ہورہا۔ اس صورتحال پر ہماری اعلیٰ عدلیہ نے کئی بار نوٹس لیتے ہوئے احکامات بھی جاری کیے ہیں لیکن متعلقہ محکموں اور اداروں کی "سر پھری انتظامیہ"کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اس وقت ملک میں وفاقی اور صوبائی سطح پر پنشن کے تعین کے جو فارمولے رائج ہیں اس کے تحت ریٹائرڈ ملازم کی جو ماہانہ پنشن بنتی ہے اس سے وہ تو "دو وقت کی روٹی"بھی نہیں کھا سکتاآپ حیران ہونگے ہمارے قومی بنکوں کے پنشنرز کی پنشن گزشتہ کئی سالوں سے منجمندہے اور کئی بنک ایسے بھی ہیں جہاں ریٹائر ملازم کو پنشن دی ہی نہیں جاتی۔ کوئی اِن نفع بخش بنکوں کے مالکان کو نہیں پوچھتا۔ بنکوں کے پنشنروں کے مقدمات عرصہ دراز سے عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں لیکن انہیں بروقت انصاف میسر نہیں ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ وزارت خزانہ، سٹیٹ بنک، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے بنک کے بوڑھے بزرگ پنشنروں کو ان کا جائز حق دلانے کیلئے فوری کاروائی عمل میں لائے۔
آپ حیران ہونگے پاکستان کے قومی جہازراں ادارے پی آئی اے میں 10 سے 12 اقسام کی پنشن رائج ہے جس سے پنشنرز نہ صرف ڈسپیریٹی کا شکار ہیں بلکہ ہر سال مہنگائی کے تناسب سے پنشن اور مالی مراعات میں اضافہ نہیں ہورہا ہے اس کا انصافی کا ازالہ کرنے کیلئے اس ادارے کے پنشنروں کی پنشن میں کم از کم دو سو فیصد کا اضافہ کر کے موجودہ ڈسپیریٹی )تفاوت(کو ختم کیا جائے دوسری طرف ریلوے کے بوڑھے بزرگ پنشنروں کو ہر ماہ وقت پر پنشن نہیں ملتی اور ریٹائر ہونیوالے ملازمین کے اربوں روپے کے بقایا جات واجب الادا ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے کو چاہیے کہ وہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ بوڑھے بزرگ پنشنروں کو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ہر صورت میں پنشن ملے۔
…………………… (جاری)
یہ کیسی دکھ کی بات ہے کہ کئی وفاقی وصوبائی محکموں ،اداروں، کا رپوریشنرز، اتھارٹیز میں پنشنروں کا ان کے جائز حق، مہنگائی کے تناسب سے پنشن میں سالانہ اضافہ نہیں دیا جاتا اور نہ میڈیکل الاؤنس میں اضافہ کیا جارہا ہے اور نہ ہی پنشنرز کی اپنی رقم گروپ انشورنس واپس کی جارہی ہے یہ سراسر ظلم زیادتی اور نا انصافی ہے جس کا فوری ازالہ ضروری ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حاضر سروس ملازمین ہر سال بجٹ سے پہلے 3یا4دھرنے دیتے ہیں، احتجاج ہوتا ہے۔لاٹھی چارج ہوتا ہے آنسو گیس کے شیل پھینکے جاتے ہیں اور پھر حاضر سروس ملازمین تنخواہوں میڈیکل الاؤنس مالی مراعات اور ڈسپیریٹی الاؤنس کے حق دار ہوجاتے ہیں لیکن کسی حکومت نے ابھی تک پنشنروں کو دل کھول کر مراعات نہیں دیں اور نہ ہی ڈسپیریٹی الاؤنس دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ گیارہ ماہ کو طویل عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک کئی محکموں اور اداروں میں وزیرِ اعظم کے حکم کے مطابق پنشن میں یکم جولائی 2022سے 15فیصد اضافہ نہیں ہو سکا ہے کئی ادارے ایسے بھی جنھوں نے پنشنروں کے کئی ماہ کے بقایا جات"اڑنچو"کر دیئے ہیں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ مثلاً پی ٹی وی نے حکومت کے اعلان کے مطابق یکم جولائی 2022سے پنشن میں
اضافہ کرنے کی بجائے یکم فروری 2023سے اضافہ کر کے پنشنرز کو 7 ماہ کے بقایا جات سے محروم کردیا اسی طرح کمیوٹ شدہ پنشن کے بحالی 72سال کی بجائے 75سال کی عمر پر اور اس پر مزید ظلم ، نا انصافی کہ گزشتہ 15سال سے زائد عرصے کے دوران پنشن میں ہونے والے اضافہ جات کی ادائیگی کے جائز حق سے بھی محروم کر دیا جس کا وزیرِ اعظم کو فوری نوٹس لینا چاہیے ۔ قارئین کو یہ جان کر یقینا حیرانگی اور دکھ ہوگا کہ صنعتی اداروں کے رجسڑڈصنعتی ریٹائرڈ ورکروں کو گزشتہ کئی سالوں سے صرف 8500روپے ماہوار EOBI پنشن مل رہی ہے۔
اور اس میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا۔ ای او بی آئی پنشنرز حکومت سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ محض 8500روپے ماہوار بڑھاپے کی پنشن سے کیا زندگی کی گاڑی کھینچی جا سکتی ہے ۔ ؟ اِن صنعتی ریٹائر ورکروں کا مطالبہ بلکل جائز ہے کہ ان کی پنشن ایک مزدور کی ماہانہ اجرت30000/-روپے کے برابر کی جائے یاد رہے کہ ان بزرگوں کو بڑھاپے کی پنشن EOB/میں جمع مزدوروں کے اپنے سرمائے سے ملتی ہے جواربوں روپے کی شکل میں ادارے کے اکاؤنٹ میں جمع ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ مالی وسائل رکھنے کے باوجود ساڑھے سات لاکھ EOBIپنشنرز کو 8500ماہانہ پنشن دے کر ظلم کیوں کیا جارہا ہے موجودہ حکومت کو یقینا چند ماہ بعد ہونے والے متوقع انتخابات میں بزرگ شہریوں کے 2کروڑ سے زائد قیمتی ووٹوں کی ضرورت تو ہوگی۔ ؟ لہٰذا وزیرِ اعظم کو چاہیے کہ وہ ملک کے تمام بزرگ شہریوں بلخصوص پنشنروں کیلئے دل کھول کر مراعات اور سہولتوں کا اعلان کرے اور جان بچانے والی ادویات کی موجودہ قیمتوں میں کم ازکم 50فیصد کمی کرے۔ بزرگ شہریوں کیلئے علاج معالج اور لیبارٹری ٹیسٹ کی تمام سہولتیں مفت دینے کا اعلان کرے اس کے علاوہ ملک کے تمام تفریحی مقامات بشمول پارکوں اور تاریخی مقامات میں مفت داخلے اور پارکنگ کی سہولتیں دیں۔ ملک کے تمام بلدیاتی و سرکاری اداروں اور خاص کر بنکوں میں بزرگ شہریوں کیلئے خصوصی کاؤنٹر کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں انہیں قطاروں کے جھنجٹ سے نکال کر ہر طرح کی سہولتیں دی جائیں یاد رہے کہ اِ ن اداروں میں محض ایکxایک فٹ کا نوٹس "کاؤنٹر برائے بزرگ شہری"آویزاں کرنے سے جملہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام ملک کے صوبائی وفاقی محکموں اداروں کا رپوریشنز اور بنکوں کے تمام ریٹائر ملازمین کی پنشن میں 100فیصد اور موجودہ میڈیکل الاؤنس میں بھی 100فیصد اضافہ کیا جائے۔ تمام وفاقی و صوبائی محکموں کے ریٹائر ملازمین کو گروپ انشورنس کی رقم بمعہ منافع واپس کی جائے اور 60سال سے زائد عمر کے تمام بزرگ شہریوں کو ہر طرح کے پراپرٹی, وہیکلز اور سیلز ٹیکس معاف کیے جائیں۔ تمام بزرگ شہریوں کو ریلوے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں مفتسفریسہولتیں اور پی آئی اے کے ٹکٹوں میں بشمول حج فلائیٹس 50فیصد کی خصوصی رعایت دی جائے۔ یقینا بزرگوں سے شفقت، محبت اور اخلاق سے پیش آنا، انہیں سہولتیں دینا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہمارے دین کا پیغام بھی ہے اور حکم بھی۔ لیکن کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ حکومت کی ترجیع بزرگوں کو مراعات دینے کی بجائے ، انہیں مہنگائی کی سونامی میں غوطے دینا ہی ہے اس کاحساب انہیں روز قیامت لازماً دینا ہوگااور اس سے فرار قطعاً ممکن نہیں ہے۔