نوجوان طبقاتی سیاسی جماعت بنائیں

May 31, 2023

قیوم نظامی

پاکستان کے جو نوجوان میرے 80 سالہ پس منظر سے آگاہ نہیں ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں سماجی کام کرتا رہا۔ عملی سیاست کا آغاز 1968 میں پی پی پی میں شامل ہو کر کیا۔ نیو سمن آباد کے پرائمری یونٹ کے صدر سے پی پی پی پنجاب کا سیکرٹری اطلاعات نامزد ہوا - 1977 میں پارٹی کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات بنا اور 20 سال تک اس سیاسی عہدے پر فائز رہا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ قائد اعظم، علامہ اقبال، جرنیل اور سیاست دان، پاک امریکہ تعلقات پر تحقیقی کتب لکھیں۔ گزشتہ دس سال سے پاکستان جاگو تحریک کے بانی کی حیثیت سے بیداری اور شعور کی تحریک چلا رہا ہوں جس کا بنیادی نعرہ سوچ بدلو نظام بدلو ہے۔ میرا کوئی سیاسی ایجینڈا اور کسی کے خلاف کوئی تعصب نہیں ہے۔ ساری عمر پاکستان اور عوام کے ساتھ جڑا رہا ہوں۔ سیاسی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان کو زوال سے باہر نکالنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ نوجوان طبقاتی بنیاد پر سیاسی جماعت بنائیں جس کا بنیادی مقصد "سٹیٹس کو" کو توڑنا اور ریاست کو مافیاز سے نجات دلانا ہو۔ قائد اعظم نوجوانوں کے لیے رول ماڈل ہیں جو پاکستان کے واحد لیڈر ہیں جنہوں نے سیاسی بصیرت اور اخلاقی قوت کی بنا پر قومی مقصد "پاکستان" حاصل کر لیا۔ مسلم لیگ ملٹی کلاس جماعت تھی۔ سب کا آزادی اور پاکستان پر مکمل اتفاق تھا۔ آزادی کے بعد جب پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا موقع آیا تو ذاتی اور گروہی مفادات رکاوٹ بن گئے۔ مسلم لیگ کے جاگیرداروں تاجروں اور سینئر بیورو کریٹس اور فوج کے جرنیلوں نے یہ خواب پورا نہ ہونے دیا اور آزادی سے پہلے والے "سٹیٹس کو" کو قائم رکھا۔ قائد اعظم کے بعد جو بھی لیڈر آئے انہوں نے ملٹی کلاس پارٹیاں بنائیں جس کی وجہ سے"سٹیٹس کو" کے حامی مضبوط ہوتے رہے۔ 1947 کے بعد خاندان مضبوط ہوئے جبکہ پاکستان مقروض اور غریب ہو گیا۔ تاریخ نے ثابت کر دکھایا ہے کہ کوئی ملٹی کلاس پارٹی"سٹیٹس کو" کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی موت کی کوٹھڑی میں لکھی گئی اپنی آخری کتاب میں سیاسی فتویٰ جاری کر دیا تھا کہ ملٹی کلاس پارٹی بنا کر انقلابی اصلاحات نافذ کرنا ان کی غلطی تھی اور نوجوانوں کو طبقاتی جدوجہد کرکے ریاست پر عوام کی بالادستی قائم کرنی چاہیے۔ پاکستان پر حکمرانی کرنے والی 2 فیصد اشرافیہ کے افراد مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں شخصیت پرستی ہے اور ان کے اندر جمہوری کلچر نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پارٹیوں کے لیے قربانیاں غریب کارکن دیتے ہیں جبکہ ان کی قربانیوں کا ثمر امیر افراد کو ہی ملتا ہے- کروڑ پتی لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں جو عوام کی فلاح کے لیے قانون سازی نہیں ہونے دیتے- پاکستان میں شخصیت پرستی پر مبنی سیاست ناکام ہو چکی ہے۔ ایک آپشن جس کا تجربہ پاکستان میں نہیں کیا گیا وہ طبقاتی سیاسی جماعت کا ہے جس میں صرف غریب اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ شامل ہوں اس جماعت میں پاکستان کے 2 فیصد سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور تاجروں کی شمولیت پر پابندی ہو۔ 20 پڑھے لکھے نیک نام باشعور اور بیدار نوجوان اس جماعت کی اجتماعی قیادت کریں۔ اکثریتی فیصلے سے ایک نوجوان کو ایک سال کے لیے پارٹی کا ترجمان صدر بنایا جائے۔ اجتماعی دانش سے پالیسی فیصلے کیے جائیں۔ پارٹی کو جمہوری اصولوں کے مطابق چلایا جائے۔ عوام کو ایسا انقلابی ایجنڈا دیا جائے جس پر قومی اتفاق رائے ہو۔ عوام کی طاقت کو اشرافیہ کے بجائے عوام کے مفاد میں استعمال کیا جائے۔ بھارت کی "عام آدمی پارٹی" دور حاضر کا بہترین ماڈل ہے جس سے سیکھا جا سکتا ہے۔ طبقاتی جماعت جمہوری فلاحی ریاست آئین و قانون کی حکمرانی سماجی انصاف مساوی مواقع اور یکساں شفاف احتساب کو اپنے بنیادی سلوگن قرار دے۔ کرپشن کی سزا پھانسی دینے کا اعلان کرے۔ جماعت کے انقلابی منشور میں عہد کیا جائے کہ ہر نوجوان کو روزگار یا بیروزگاری الاونس دیا جائے گا۔ ریاست ہر خاندان کو گھر اور تعلیم و صحت کی معیاری اور مفت سہولیات دے گی۔ قومی لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت بازیاب کرائی جائے گی- عوام وزیراعظم کو براہ راست منتخب کریں گے جو عوام کو ہی جواب دہ ہو گا۔ انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کروائے جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والوں کی اہلیت مقرر کی جائے گی۔ گڈ گورننس قائم کرکے، ذخیرہ اندوزوں سمگلروں اور ناجائز منافع خوروں کو کڑی سزائیں دے کر اور مڈل مین کا کردار ختم کرکے مہنگائی کو کنٹرول کیا جائے گا۔
انتظامی بنیادوں پر ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دیا جائے گا جس کا گورنر عوام منتخب کریں گے۔ ادارہ جاتی اصلاحات کرکے اداروں کو شفاف اور فعال بنایا جائے گا۔ لوکل گورنمنٹ کو سیاسی مالی اور انتظامی طور پر خود مختار اور مستحکم بنایا جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات قومی انتخابات کے ساتھ کروائے جائیں گے۔ صوبائی اسمبلیاں ختم کر دی جائیں گی۔ گورنر کی ایک مشاورتی کونسل ہو گی جس میں ضلعوں کے منتخب نمائندے شامل ہوں گے۔ دیہاتی اور شہری جائیداد کی حد مقرر کی جائے گی۔ ہر آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ ڈائریکٹ ٹیکس لگائے اور ان ڈائریکٹ ٹیکس ختم کیے جائیں گے۔ پولیس کو غیرسیاسی اور عوام دوست بنایا جائے گا۔ کالم میں انقلابی منشور کے پورے نکات شامل نہیں کیے جا سکتے۔ پاکستان میں باشعور اور بیدار نوجوانوں کی کمی نہیں ہے وہ آگے بڑھیں اور آل پاکستان کنونشن بلا کر مشاورت کے ساتھ طبقاتی سیاسی جماعت اور منشور کا اعلان کریں۔ ناکام تجربے کو بار بار آزمانا کامن سینس کی بات نہیں۔ پاکستان کو زوال سے باہر نوجوان ہی نکال سکتے ہیں۔ لیڈروں کی جانب دیکھنے کی بجائے نوجوان قیادت اپنے ہاتھ میں لیں۔ جمہوری اصولوں پر عمل کرتے ہوئے عوام دوست جماعت بنائیں جو سب کے لیے رول ماڈل ہو اور پاکستان کے اچھے لوگ خوشی کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہونے کے لیے آمادہ ہوں۔ نوجوان اگر نیک نیتی کے ساتھ قومی مقاصد کے لیے عوام کو بلاتفریق عزت سے زندگی گزارنے کا حق دینے اللہ کی رضا اور عوام فلاح کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے لیے ایسے اسباب پیدا کرے گا کہ وہ حیران رہ جائیں گے۔ پاکستان بھر میں سماجی فلاحی اور سیاسی کام کرنے والے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر 2 فیصد اشرافیہ کی اجارہ داری اور بالا دستی ختم کرنے کے لیے متحدہ محاذ بنائیں۔

مزیدخبریں