سردار آصف احمد علی ایک نامور مصور عظیم شاعر ، لاجواب سیاست دان۔

May 31, 2023

شبیر احمد قصوری 
19 مئی کو سردار آصف احمد علی صاحب کو ہم سے بچھڑے ایک سال ہو گیا ہے۔ انکے جانے سے ملک ایک عظیم سیاسی اور ادبی شخصیت سے محروم ہو گیا۔ وہ ان عظیم اور وضعدار سیاستدانوں میں شامل تھے جنہوں نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی۔ جہاں اصولوں پر سودے بازی کرنا پڑی فوراً پارٹی اور منصب پر لات مار دی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان پر بار بار پارٹیاں بدلنے کا الزام بھی لگا مگر انہوں نے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ 
آرائیں برداری کے اس عظیم سپوت نے پنجاب کے ایک بڑے جاگیر دار اور سیاستدان سردار احمد علی کے گھر 21 اکتوبر 1940 کو آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم لارنس کالج گھوڑا گلی سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ چلے گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات اور سیاسیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
انگلینڈ سے واپسی کے بعد ایف سی کالج لاہور میں دو سال تک اکنامکس پڑھاتے رہے۔
سیاست انکے گھر کی لونڈی تھی۔ انکے چچا سردار محمد حسین تقسیم ہند سے پہلے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے رکن اسمبلی تھے۔ انکے والد سردار احمد علی بھی چئیرمن ضلع کونسل اور رکن قومی اسمبلی رہے۔ انکا آبائی علاقہ ضلع قصور کا گاؤں قلعہ گنجا تھا۔ انکے بزرگوں نے سکھ راج کے دوران اس قلعے پر قبضہ کرکے اس علاقے میں اپنی سرداری قائم کی اور اسی وجہ سے سردار کہلائے جاتے ہیں۔
سردار آصف احمد علی نے اپنی سیاست کا آغاز ون یونٹ کے دوران گورنر مغربی پاکستان کے مشیر کے طور پر کیا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں ممبر مجلس شوریٰ بھی رہے۔ عوامی سیاست کا آغاز 1985 کے غیر جماعتی الیکشن سے کیا اور قصور شہر کے حلقہ سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور ان چند ارکان میں شامل تھے جنہوں نے محمد خان جونیجو  کیدور حکومت میں اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔1988 کا الیکشن پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑا مگر کامیاب نہ ہو سکے.
1990 کا الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا اور گلاس کے نشان پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور میاں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں وزیر مملکت برائے اقتصادی امور مقرر ہوئے۔ اس دوران  روس سے نئی نئی آزاد ہونے والی وسطی ایشیائی ریاستوں کا طویل دورہ کیا اور اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹ لکھی کہ کس طرح پاکستان ان ریاستوں سے تجارتی تعلقات استوار کرکے اپنی مصنوعات کو نئی منڈیوں میں متعارف کروا سکتا ہے۔ مگر انکی سفارشات پر غور ہی نہ کیا گیا اور نہ ہی وزیراعظم نے جلدی ملاقات کا وقت ہی نہ دیا۔ یہیں سے میاں نواز شریف کے ساتھ اختلافات کا آغاز ہوا۔ 
وہ عالمی اور علاقائی سیاست اور معیشت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انکو مختلف اسلامی ملکوں کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ انکے مطلوب اور مفرور ملزمان ہمارے سرحدی اور قبائلی علاقوں میں پناہ لے رہے اور اپنے آپکو منظم کر رہے ہیں۔ یہی بات پہلے حکومتی سطح پر اور پھر پریس کانفرنس میں کی۔ انکا کہنا تھا چونکہ پاکستان ان مطلوب افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہا جس سے دوسے ممالک میں یہ تاثر جارہا ہے کہ شاید پاکستان ان دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے وزارت اور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ان پر حکومت کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ آپ نے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا ہے۔ یہی پریس کانفرنس بعد میں نواز شریف کی پہلی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ 
وہ انتہائی دور اندیش انسان تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ انکی کہی ہوئی باتیں حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں اور پاکستان آج تک قبائلی علاقوں میں اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
اسی دوران مسلم لیگ میں اختلافات پیدا ہوئے اور حامد ناصر چٹھہ کی قیادت میں ایک دھڑا علیحدہ ہو گیا جسکو مسلم لیگ جونیجو کا نام دیا گیا۔
1993 کا الیکشن مسلم لیگ جونیجو گروپ کے پلیٹ فارم سے لڑا۔ پاکستان پیپلز پارٹی انکی اتحادی جماعت تھی۔ اس الیکشن میں موجودہ مشیر دفاع ملک احمد خان کے والد سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ملک محمد علی خان اور سابق وزیر خارجہ بیرسٹر خورشید محمود قصوری جیسے بڑے ناموں کو بڑے مارجن سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ملک کے اٹھارویں وزیر خارجہ بنے۔ اور ملک کی بے پناہ خدمت کی۔ اسی دوران کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا، ایک ملازم بھی جان سے گیا اور سائفر بک چوری کرکے بھارت پہنچا دی گئی۔ یہ  پاکستان کے لئے بڑا کڑا وقت تھا جس کا بڑی ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کیا گیا۔ 1997 کا الیکشن جیت نہ سکے اور پھر اپنا زیادہ وقت لوگوں کو ملنے، لکھنے لکھانے اور پینٹنگز بنانے میں صرف کرتے۔ پنسل ورک میں انہیں خصوصی مہارت تھی۔ 2003 میں انکی پینٹنگز کی نمائش الحمراء لاہور میں ہوئی جسکا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی نے کیا۔
جنرل مشرف کے دور میں مسلم لیگ قائد اعظم کا قیام عمل میں آیا اور لوگوں کو زبردستی اس میں شامل کیا گیا۔ سردار صاحب پر بھی بہت دباؤ ڈالا گیا مگر وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور اپنی توجہ لکھنے لکھانے اور عوامی خدمت پر مرکوز رکھی۔ اسی دوران انگریزی شاعری میں اپنی کتاب (High Assembly of Sages) مکمل کی۔
محترمہ بینظیر بھٹو انکی رائے کو بہت اہمیت دیتی تھیں اور مشرف دور حکومت میں انکی جلاوطنی کے دور میں پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال کے بارے میں انکو آگاہ کرتے رہتے۔ 
2007 کا الیکشن پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑا۔ دوران الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا افسوسناک واقع پیش آیا۔ اس الیکشن میں پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں اس حلقہ پر تھیں کیونکہ دو سابق وزیر خارجہ مدمقابل تھے۔ اس الیکشن میں بیرسٹر خورشید محمود قصوری کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی اور یوسف رضا گیلانی کے دور میں پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ پھر پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بنائے گئے اور پھر راجہ پرویز اشرف کے دور میں وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی بنے مگر پارٹی میں ایڈجسٹ نہ کر سکے اور وزارت اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔  
بعد میں ضمنی الیکشن آزاد حیثیت سے لڑا مگر ناکام رہے۔
زندگی کے آخری سالوں میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔
کھاتے پیتے جاگیر دار گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود زندگی انتہائی سادہ اور درویشی میں گزاری۔ ساری عمر زیادہ تر قصور کا بنا ہوا سفید لٹھا پہنا۔ انتہائی نڈر تھے۔ ساری عمر کوئی سکیورٹی گارڈ ساتھ نہیں رکھا۔ لوگ انکو اکیلا دیکھ کر بڑا حیران ہوتے۔ جب وہ وزیر خارجہ تھے قصور اور حلقیکے دورے میں  پروٹوکول کے مطابق پولیس سکواڈ ساتھ تھی۔ ایک دو دفعہ تو برداشت کر گئے بعد میں مجھے کہنے لگے کہ میرے ساتھ کوئی پولیس اہلکار یا گاڑی نہ نظر آئے۔ ان کا پیغام قصور کے ڈپٹی کمشنر کو پہنچایا تو اس نے اپنی مجبوری بتائی کی سکیورٹی سردار صاحب کو نہیں بلکہ قانون کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ کو دی جاتی ہے۔ مگر وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ میرے اپنے لوگ ہیں مجھ ان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ آخر یہ طے پایا کہ انکے ساتھ کوئی اہلکار وردی میں نہیں ہوا کرے گا۔ الیکشن کے لئے نکلتے تو ہمیں ایک بات کہتے کہ گاڑی میں پٹرول اور میرے سگریٹ ختم نہ ہوں باقی کسی چیز کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔
پاکستانی سیاست اور ادب کا یہ درخشندہ ستارہ 19 مئی 2023 کو کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ اور اپنے گاؤں بونگہ مالا نزد ہیڈ بلوکی میں اپنے والدین کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔
ساری عمر انتہائی صاف ستھری سیاست کی۔ چار دفعہ رکن قومی اسمبلی رہے۔ پانچ چھ دفعہ وزیر اور مشیر رہے۔ مگر کٹر سیاسی مخالف بھی انکی پاکدامنی کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ ہر طرح کی سیاسی اور مالی کرپشن سے اپنا دامن بچا کر رکھا۔ سرکاری گاڑی اور سرکاری ٹیلی فون کے استعمال میں بھی بہت احتیاط برتتے۔ 
سیاست میں کبھی کسی چور ڈاکو کی سفارش اور سرپرستی نہیں کی۔ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے۔ تعلق آرائیں برداری سے ہونے کے باوجود حلقے کے سارے لوگوں کو اپنی برادری کہتے۔ انکی وفات کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی خلا شاید کبھی پر نہ ہو سکے۔ 
اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے۔ آمین

مزیدخبریں