صحافیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس کو اپنے ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے باخبر رکھیں یا ان واقعات کا پس منظر ، وجوہات اور نتائج عوام تک پہنچائیں، جسے تجزیہ کہا جاتا ہے۔ اگر خبریں اور تجزیے صرف عوام کو باخبر رکھنے اور ان تک درست معلومات پہنچانے کے ارادے سے ہوں تو یہ معاشرے کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں اور اسی کو غیر جانبداری کی صحافت کہا جاتا ہے جو کہ صحافت کا بنیادی اصول ہے۔ اس کے برعکس اگر خبریں پہنچانے اور تجزیہ کاری کا عمل ذاتی مفادات کے تحفظ ، کسی خاص مقصد کی تکمیل ، پسندیدہ سیاسی جماعت کی خوشامد یا ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہونے لگے تو یہ معاشرے کے لیے نہایت مضر ثابت ہوتا ہے جسے جانبداری کہا جاتا ہے اور ایسی صحافت، صحافت نہیں بلکہ انتشار بن جاتی ہے۔
حالیہ دور میں صحافت میں سیاسی جماعتوں سے وابستگی بڑے پیمانے پر در آئی ہے اور صحافی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی مدح سرائی میں مگن نظر آتے ہیں اور ان کا انداز گفتگو ہی بتا رہا ہوتا ہے کہ موصوف کس جماعت سے وابستہ ہیں۔ بہت سے میڈیا چینل بلکہ ملک کے بڑے اور نامور چینل سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت کے ہر جائز و ناجائز فعل کو جائز اور درست قرار دینے اور مخالف سیاسی جماعت کے ہر فعل کو غلط قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک سیاسی جماعت کے تمام افعال کی توضیح و تشریح کر کے انہیں عوام کے سامنے درستبنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، چاہے وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو ، چاہے وہ ملک کے لیے کتنا ہی نقصان دہ ہو مگر یہ اسے کسی طرح درست ثا بت کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ انہیں اپنی سیاسی جماعت کا ہر برا فعل بھی اچھا معلوم ہوتا ہے جبکہ مخالف جماعت کا ہر اچھا فعل بھی برا معلوم ہوتا ہے۔ یہ تعصب کی بد ترین مثال ہے۔
اپنی سیاسی جماعتوں کے جلسوں کو خوب کوریج دیتے ہیں اور وہاں بھی جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں وہ ایسے کہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے جلسے میں افراد کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں وہاں کیمرے بھی اس طرح لگاتے ہیں کہ عوام کی قلیل تعداد بھی کثیر معلوم ہوتی ہے، مگر جس جماعت کو یہ پسند نہیں کرتے وہاں ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے جلسوں میں شریک عوام کی تعداد کم کر کے بتائی جائے اور جہاں کہیں جگہ خالی نظر آتی ہے یہ کیمرے وہاں لگاتے ہیں تاکہ ویڈیو ثبوت موجود ہو کہ لوگ حقیقتاً کم تھے۔ یہ تعصب کی بدترین مثال ہے اور صحافت میں جانبداری کا منہ بولتا ثبوت ہے جس نے شعبہ ٔ صحافت سے عوام کا اعتماد ختم کر دیا ہے۔
کچھ صحافی یا ٹی وی چینل ایسے ہیں جو کسی ایک جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں وہ اقتدار میں ہو یا نہ ہو وہ اسی کی تعریفیں کرتے ہیں اور اسی کے گن گاتے ہیںمگر کچھ ایسے صحافی بھی ہیں جو ہر صاحب اقتدار کے ہوتے ہیں ، یعنی کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے تو یہ اس کی تعریفیں کرنے لگتے ہیں ، لیکن جیسے ہی اس کا اقتدار ختم ہوتا ہے تو یہ دوسرے صاحب ِاقتدار کی تعریفات میں مگن ہو جاتے ہیں اور پہلے والے کو برا بھلا اور کرپٹ قرار دینے لگتے ہیں۔ ایسے افراد کو اپنے فرائض سے نہیں مفادات سے دلچسپی ہوتی ہے اور جب ان کے مفادات کسی سے وابستہ ہوں تو یہ اسی کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں مگر جب ان کے مفادات وہاں سے ختم ہو کر کسی اور سے وابستہ ہو جائیں تو یہ پارٹی بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے افراد نہایت متعصب ہوتے ہیں اور اپنے اس تعصب کی وجہ سے ہی حق و سچ سننے اور کہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ شعبۂ صحافت کی بدنامی کا باعث ہیں اور اس شعبے سے عوام کا اعتبار ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مفتی محمد شفیع? ایسے صحافیوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’ہمارے ارباب صحافت کا ایک گروہ وہ ہے جو ہر صاحب اقتدار کی مدح و توصیف اور اس کے ہر قول و فعل کی توثیق و تصویب کا خوگر رہا ہے، یہاں تک کہ ایسی مثالیں ہماری صحافت میں ایک دو نہیں بے شمار ہیں کہ ایک شخص کسی صاحب اقتدار کو اس کے عہدِ حکومت میں آفتاب و مہتاب قرار دیتا ہے اور اس کے ہر جائز و و ناجائز فعل پر ''احسنت و مرحبا'' کی صدائیں بلند کرتا ہے لیکن جب اس کا اقتدار ڈھلتا ہے اور اس کا کوئی مخالف حکومت کی کرسی سنبھالتا ہے تو اسے بدترین آمر اور اس کے عہد حکومت کو بدترین عہدِ حکومت قرار دینے میں اسے کوئی باک محسوس نہیں ہوتا۔ ‘‘(صحافت اور اس کی شرعی حدود، ص:۹)
لہٰذا صحافیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ غیر جانبداری سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیں کسی کی درست بات کو دیکھیں تو اس کی تعریف کریں اور اگر کوئی غیر آئینی ، غیر قانونی یا غیر شرعی فعل کا مرتکب ہو تو فوراً اس پر تنقید کریں اور اس کے فعل کو عوام کے سامنے من و عن رکھ دیں۔ صحافیوں کو کسی قسم کی لالچ کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔ ہمارے چند بڑے نیوز چینلز کی طرح کسی ایک سیاسی جماعت کی ترجمانی نہیں کرنی چاہیے۔ دین میں بھی جانبداری ، بے جا تعریفات، تعصب اور جھوٹ کو نہایت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور معاشرے میں ان سب افعال کو نہایت قبیح سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی اچھا کرے تو اسے اچھا کہیں اور لکھیں اور اگر کوئی برا کرتا ہے تو اسے برا ہی کہیں اور لکھیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے ایسی وابستگی نہایت مذموم ہے کہ اس کا ہر فعل درست معلوم ہونے لگے اور دوسروں کاہر فعل غلط۔ اگر صحافیوں میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو صحافت عبادت بن جائے گی اور عوام اس مقدس شعبے پر اعتماد کرنے لگیں گے۔
بقول قتیل شفائی:
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخن ور نہیں گرتا