لاہور (نیوز رپورٹر)روزنامہ آفتاب کے بانی اور اے پی این ایس کے مرکزی رہنما ممتاز احمد طاہر مرحوم کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ممتاز طاہر ایک نظریاتی صحافی تھے انہوں نے صحافت کی اعلی قدروں کو فروغ دیا اور احساس محرومی کے شکار طبقات کے ترجمان بنے رہے ،گورنر ہاؤس لاہور میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اے پی این ایس نے ممتاز طاہر مرحوم کی خدمات کے اعتراف کے لیے ریفرنس منعقد کر کے اہم فریضہ سرانجام دیا ہے ممتاز طاہر مرحوم نے بطور صحافی اپنی تحریر ہی نہیں گفتگو میں بھی کبھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا ، الفاظ کے چناؤ میں وہ بہت احتیاط سے کام لیتے تھے اس طرح سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ گفتگو میں غیر پارلیمانی الفاظ مت استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے میں نے بطور پارلیمنٹرین ، اسپیکر قومی اسمبلی یا بطور وزیر اعظم کبھی کوئی غیر پارلیمانی گفتگو نہیں کی اور نہ ہی کبھی کوئی قومی راز افشا کیا ہے، انہوں نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت بغیر نظریے کے قائم نہیں رہ سکتی پی ٹی آئی کے زوال کا سبب بھی یہی ہے کہ اس کے پاس اپنے لوگوں کو اکٹھا رکھنے کے لیے کوئی نظریہ نہیں ہے ، جبکہ پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہونے کے سبب آج بھی اپنے قائد ذولفقار علی بھٹو کے مشن پر گامزن ہے -انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم وبانی پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور سابق وزیراعظم نواز شریف بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کو نیو کلیئر پاورڈیکلیئر کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک کو آئین دیا۔ آئین پاکستان اور ایٹمی طاقت ہماری سلامتی کے ضامن ہیں۔گورنر پنجاب انجینئربلیغ الرحمن نے اپنے خطاب میں ممتاز احمد طاہر کی صحافتی خدمات کو شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔گورنر پنجاب نے کہا کہ ممتاز احمد طاہر صاحب نے علاقائی اخبارات کی ترقی وترویج کے لئے بے پناہ اور انتھک کام کیا۔علاقائی صحافت کا امام ہونے کے ناطے انہوں نے روزنامہ آفتاب کو نہ صرف پسماندہ علاقوں کے کمزور طبقوں کے مسائل اور مصائب کے حل کے لئے ایک پلیٹ فارم کی شکل دی بلکہ ان کمزور طبقوں کی آواز کو جس حد تک ممکن ہوااقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا۔انہوں نے ملک کے استحصالی طبقوں کے خلاف اپنے قلم سے تلوار کا کام لیا۔ایسی ہمت اور جرأت ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی، ان میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ممتاز احمد طاہر صاحب اپنی ذات میں علم وعمل کا ایک جہاں بسائے ہوئے تھے۔ان کے چلے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے۔وہ مدتوں تک پر نہیں ہو گا۔وہ نظریاتی صحافت کے علمبردار اور نہایت وضع دار شخصیت کے حامل تھے۔ان کے انتقال سے بلاشبہ صحافت کا ایک باب بند ہو گیا ہے - روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر معروف صحافی وتجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ممتاز احمد طاہر نے علاقائی صحافت کا وقار بلند کیا، پاکستان کی پرنٹ میڈیا انڈسٹری کی قد آور شخصیات میں ممتاز طاہر کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان سے عشروں کا تعلق اور رفاقت تھی۔ان کی شخصیت کو بھلایا نہیں جا سکتا۔وہ جوڑنے والے تھے توڑنے والے نہیں۔وہ علاقائی اخبارات کے ترجمان ومحافظ تھے۔دوسری محبت ان کی جنوبی پنجاب تھی وہ جنوبی پنجاب کی آواز اور علمبردار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پرنٹ میڈیا پر مشکل وقت سے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کو حل کرے۔ مجیب الرحمان شامی صاحب نے کہا کہ ممتاز طاہر ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر اور تول کر بولتے تھے۔وہ زخموں پر مرہم لگانے والوں میں سے تھے۔اے پی این ایس کے سیکرٹری جنرل سید سرمد علی نے ممتاز احمد طاہر کی صحافتی خدمات کو سراہا اور انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ اے پی این ایس کی کوئی میٹنگ ممتاز طاہر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی ،آج ان کی کمی شدت سے محسوس جارہی ہے ۔ان کی یادیں ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ممتاز احمد طاہر نے علاقائی اخبارات کو آگے لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ علاقائی اخبارات کا 25 فیصد کوٹہ ان کی محنت اور کاوشوں سے مخصوص ہوا اور ان کا کردار کلیدی تھا۔اے پی این ایس کی کوئی ایسی میٹنگ نہیں ہوتی تھی جس میں ممتاز طاہر علاقائی اخبارات کا ذکر نہ کرتے۔ علاقائی اخبارات بڑے صحافیوں کے لئے نرسری اور ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہیں۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ان کے بیٹے محسن ممتاز اور اسد ممتاز اپنے والد کے علاقائی اخبارات کے مشن کو جاری رکھیں گے اور آفتاب کو آفتاب بنائیں گے۔روزنامہ تجارت وجرأت کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی نے کہا کہ ممتاز احمد طاہر صاحب سے تعلق کی کہانی نصف صدی پر محیط ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس کس چیز کا حوالہ دوں اور کہاں پر ختم کروں۔ممتاز طاہر جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔انہیں بہت اچھا انسان،مسلمان،پاکستانی،صحافتی دانشور پایا،وہ اجتماعیت کے علمبردار تھے،وہ اپنے لئے کم بلکہ دوسروں کے لئے زیادہ سوچتے تھے۔ وہ ایک صلح جو شخصیت کے حامل تھے۔اے پی این ایس کے زیر اہتمام دو علاقائی کنونشن ان کی سرپرستی میں ہوئے۔ممتاز صحافی افتخار احمد نے کہا کہ ممتاز احمد طاہر بہت ہی اچھے اور پیارے انسان تھے۔انہوں نے مجھے خبر بنانا سکھایا۔آج جو پاکستان میں جرنلزم چل رہی ہے وہ صحافت نہیں ہے۔اب ایڈیٹر کا رول ختم ہو تا جارہا ہے۔شتر بے مہار کی چیزیں چل رہی ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لئے ممتاز احمد طاہر جیسا رول ختم ہورہا ہے۔وہ اپنے وسیب سے جڑے رہے اور اپنے مقصد کے لئے جدوجہد جاری رکھی۔سابق وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی نے کہا کہ آج جو بھی تعریف وتکریم کی جارہی ہے وہ دل سے کی جا رہی ہے اور جو ممتاز احمد طاہر کو جانتا ہے وہ یہ اچھی طرح سمجھ رہا ہے کہ یہ تعریف شخصیت کی عکاس ہے۔وہ نرم گو اور کم گو تھے ہمیشہ نپی تلی گفتگو کرتے ان کے منہ سے سخت الفاظ نہیں نکل سکتے تھے۔انہوں نے شرافت،عزت اور لوگوں میں جو جگہ بنائی وہی ان کی زندگی بھر کی کمائی ہے۔ تقریب سے روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر امتنان شاہد نے خطاب میں کہا کہ ممتاز صاحب بڑے صحافی ہی نہیں بڑے انسان بھی تھے ان کی محبتوں کو بھلا نا ناممکن ہے نئی نسل کے لئے ان کی زندگی مشعل راہ ہے ، نگران وزیر قانون کنور دلشاد نے بھی خطاب کیا انہوں نے کہا کہ ممتاز احمد طاہر اعلی صحافی اقدار کے امین تھے، روزنامہ آفتاب کے گروپ ایڈیٹر اسد ممتاز نے تمام مہمانوں کا تعزیتی ریفرنس میں شرکت پر شکریہ ادا کیا۔تقریب کے اختتام پر علامہ سید حامد سعید کاظمی نے ممتاز احمد طاہر کی مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا کرائی۔