پاکستان کو درپیش مسائل 

پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہوچکاہے عام انتخابات کے بعد ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت عمل میں آچکی ہے جس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ ملک میں ایک عرصہ سے جاری غیریقینی کی سی صورتحال ختم ہوگی اور اعتماد کی فضا بحال ہوگی، کسی بھی ملک کی ترقی کےلئے اندرونی استحکام بنیادی شرط ہے، جمہوری معاشرے میں اندرونی استحکام، سیاسی استحکام سے منسلک اور مشروط ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں صورتحال کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر توجہ دینگی کیونکہ مل کر آگے بڑھنے میں ہی سب کی بقاءاور ملک کی بہتری ہے۔ آج ہمیں میثاق معیشت کی اشد ضرورت ہے جس پر بالآخر سب کو متفق ہونا ہی پڑے گا۔
آج پاکستان کو جن مسائل کا سامناہے ان میں کمزور معیشت، دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام، باہمی اتحاد ویگانگت کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے مسائل اہم ترین ہیں۔کمزورمعیشت اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ آج کی دنیا میں کمزور معیشت قومی سلامتی کےلئے بھی سب سے بڑا خطرہ ہے، معیشت سے جڑے ہوئے چند اہم دوسرے مسائل جن میں مہنگائی، بے روزگاری، کاروبار میں سستی اورغربت جیسے سنگین مسائل شامل ہیں جس کی وجہ سے عوام میں شدید اضطراب اور بے یقینی پائی جاتی ہے، آج ہماری معیشت جمود کا شکارہے امورمملکت چلانا بھی مشکل نظر آرہاہے، آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سمیت دوسرے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر گزارا کرنا پڑرہاہے جس کی وجہ سے عوام پر اضافی بوجھ دن بدن بڑھتاجارہاہے، قرض اتارنے کےلئے مزید قرض لینا پڑرہاہے، آئے دن بجلی، گیس اور تیل کے نرخ بڑھانے پڑتے ہیں جس نے عام آدمی کا جینا دوبھرکردیاہے، سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابرہے جبکہ تجارتی خسارہ بھی بڑھتا چلاجارہاہے، ترقی کی شرح خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے جبکہ کاروبار انتہائی سست روی کا شکارہے جس وجہ سے بے روزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے، آسمان سے چھوتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال کے رکھ دی ہیں، معیشت کی بحالی نئی حکومت کی پہلی ترجیح ہے جس میں کامیابی ایک اجتماعی سوچ اور حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان لامحدود وسائل کا حامل ملک ہے صرف درست ترجیحات کا تعین اور پالیسیز کا تسلسل ہی ہمیںمنزل تک لے جاسکتاہے، بہرحال اشرافیہ کو پہل کرنی ہے، اگر عوام سے قربانی مانگی ہے تو اعتماد کی فضا سب سے ضروری ہے، اگر حکومت کی حکمت عملی درست سمت پر چلتی نظرآئے تو عوام اعتماد بھی کرتے ہیں اور قربانی بھی دیتے ہیں۔ قلیل مدتی فیصلے کرنے کی بجائے طویل المدتی فیصلے اور حکمت عملی اپنانا ہوگی۔بیرونی ذرائع اور امداد پر انحصار کم کرکے برآمدات بڑھانا ہونگی، تاکہ تجارتی خسارہ کم سے کم ہو اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف تبھی مل سکتاہے جب معیشت مضبوط ہو ورنہ قرض لے کر سبسڈی دینے سے مسائل کم نہیں ہونگے بلکہ مزید بڑھتے ہیں۔ معیشت پر سیاست ملک کےلئے ایک زہرقاتل ہے اور ایساکرنے والے کسی صورت بھی ملک وقوم کے خیرخواہ نہیں۔
دہشت گردی ایک دوسرا سنگین مسئلہ ہے جس کا آج ہمارے ملک کو سامناہے، پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی پاکستان نے دی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، ایک ایک کرکے سب اس جنگ سے جان چھڑاکے بھاگ گئے ہیںمگر پاکستان آج بھی وہیں کھڑاہے، جتنی کامیابی ہے یہ طویل اورمشکل ترین جنگ پاکستان کی افواج اور قوم نے لڑی ہے، اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ آج پاکستان کو تین اطراف سے دہشت گردی اور جارحیت کا سامناہے جس میں ازلی دشمن ہندوستان کے علاوہ اب افغانستان اور بدقسمتی سے ایران بھی شامل ہے۔ بلوچستان میں ایک شورش کی سی صورتحال ہے جبکہ سابقہ فاٹا کے علاقوں بالخصوص وزیرستان میں بھی دہشت گرد ریاست کے خلاف برسرپیکار ہیں جنہیں ہندوستان کے علاوہ افغانستان اور اب ایران کے چند مخصوص گروہوں کی مدد اورمعاونت حاصل ہے۔ پاکستان کو جان بوجھ کر نشانہ بنایاجارہاہے تاکہ ملک ترقی نہ کرسکے اور سی پیک جیسے اہم منصوبے آگے نہ بڑھ سکیں۔ پاکستان اس دہشت گردی کا بہت دلیری سے نہ صرف دلیری سے مقابلہ کررہاہے بلکہ ان دہشت گردوں کو شکست بھی دے رہاہے جس کے دوران مسلح افواج کے آفیسرز، جوان اور عام شہری جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کےلئے تمام سیاسی قوتوں کو حکومت کی بھرپور مدد کرنی چاہیے، کسی بھی طرف سے دہشت گردوں سے ہمدردی ملکی سا لمیت کےلئے سنگین خطرہ ثابت ہوسکتاہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی ایک اور اہم مسئلہ ہے جس پر قابوپانا وقت کی ضرورت ہے، پاکستان کی شرح آبادی دنیا میں بلند ترین چند ممالک میں شمار کی جاتی ہے، دن بدن وسائل کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ آبادی بڑھتی جارہی ہے جس سے صحت، تعلیم، روزگار، ماحولیاتی آلودگی اور فوڈسیکورٹی جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ زرعی زمینیں کم ہوتی جارہی ہیں جبکہ آبادی بڑھ رہی ہے، اگر ہم نے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہیں اور غربت کو کم کرناہے تو آبادی میں اضافے کی شرح کو کنٹرول کرنا ہوگا جس کےلئے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جوکسی صورت بھی قلیل المدتی نہیں ہوسکتی۔
سیاسی عدم استحکام ایک اور اہم مسئلہ ہے جو آج ہمیں درپیش ہے اور بدقسمتی سے اس میں بتدریج اضافہ ہورہاہے آج معاشرے سے برداشت، تحمل مزاجی اور رواداری کم ہوتی جارہی ہے جبکہ نفرت، تقسیم اور عدم برداشت میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے، آج سیاست دان ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور مرنے مارنے کو تیاررہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...