دین اسلام کی بنیاد اللہ کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ یہ محبت ہی اسلام کی بنیاد اور اس کی اساس ہے۔ محبت کے اس تعلق کو پختہ کرنے والی دو اہم بنیادیں قرآن مجید اور حدیث مبارک ہیں۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں بلکہ ناگزیر ہیں۔ ایک کا فہم دوسرے کے بغیر نا پختہ ہے۔ اس لئیے اسلام کی مکمل سمجھ حاصل کرنے کے لئیے قرآن و س±نت یا قرآن و حدیث کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
دور حاضر کے حوالے سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سے حضرات زندگی کا اکثر وقت کاروبار اور ملازمت میں صرف کردیتے ہیں یا کسی اور چیز میں- مگر جوں جوں عمر گزرتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ زندگی کی بے ثباتی ایک حقیقت ہے۔ عمر رفتہ تو بس ہنسی مذاق اور رنج و غصہ میں گزاردی۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی ادراک ہونے لگتا ہے کہ دین پر عمل پیرا ہونا کتنا ضروری ہے اور آخرت کی فکر میں انسان لگ جاتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے۔ انسان جب بھی اور جس عمر میں بھی خلوص نیت کے ساتھ اللہ کریم کی طرف رجوع کرلے تو یہ ایک مبارک عمل ہے۔ زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ اس کے بعد نماز اور روزہ کی طرف دھیان بڑھ جاتا ہے اور قرآن سے بھی شغف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ تلاوت قرآن مجید سے قلب کو وہ نور میسر آتا ہے جس کی اتباع میں انسان اللہ کی رحمت کا مستحق ہوجاتا ہے۔
مگر نور کے اس سفر میں ایک منزل جو بے حد ضروری اور اہم ہے وہ ہے قرآن مجید کا فہم اور ا±س سے تعلقِ خاص۔ یہ تعلق اور فہم کی منزل حدیث مبارکہ کے سنجیدہ اور پر خلوص مطالعہ اور نسبت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن فہمی کا طریقہ اسلام کے روز اول سے لے کر آج تک ایک ہی ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث پر عمل ہے۔ صحابہ کرام نے قرآن اور دین کا فہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سیکھا اور آگے سکھایا۔ ان کے بعد تابعین نے صحابہ سے سیکھا اور یہ علم آگے منتقل کیا، پھر تبع تابعین نے اور یوں یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ لہذا قرآن و حدیث، دونوں، مکمل دینی فہم کے لئیے ضروری ہیں۔
حدیث کیا ہے اور علم حدیث سے کیا مراد ہے؟ حدیث کی تعریف پرمحدیثین اور بزرگان دین کے بہت سے اقوال ہیں جو تمام مقبول ہیں۔ میرے نزدیک ڈاکٹر محمود احمد غازی کا قول بہت جامع معلوم ہوتا ہے، “ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے نسبت رکھتی ہے وہ حدیث ہے۔ رسول اللہ نے کون سی بات کیسے ارشاد فرمائی، حضور علیہ الصلوتہ والسلام نے کوئی فعل کیسے فرمایا، آپ کا طرز عمل کیا تھا، آپ کی شخصیت، ذات مبارکہ، ہر چیز جس کی نسبت حضور کی ذات گرامی سے ہے وہ حدیث ہے۔“
ہر وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اس کے لئیے یہ اشد ضروری ہے کہ آپ کے اقوال مبارک، آپ نے کوئی عمل کیسے فرمایا، آپ کا طرز زندگی کیسا تھا الغرض حدیث مبارک کی سمجھ بوجھ حاصل کرے اور جہاں تک ممکن ہو اس سے متعلق علم حاصل کرے۔
نبی کریم رحمت اللعالمین ہیں۔ اللہ عزوجل نے آپ کو ڈرانے والا اور ساتھ ہی ساتھ خوشخبری سنانے والا بھی فرمایا۔ حدیث مبارک میں، میرے نزدیک، بشارتیں ہی بشارتیں ہیں۔ محبت اور رحمت کا ایک بے کراں سمندر ہے۔ حدیث مبارک کا فیضان ہے کہ اگر آپ خلوص نیت سے اس کا مطالع فرمائیں گے تو یوں محسوس کریں گے کہ گویا آپ وہاں موجود ہیں کہ جب کہ یہ سب کچھ فرمایا جا رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی رحمت اور کریمانہ شخصیت آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتی ہے اور دل خود بہ خود ہر ایک لفظ کو جذب کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگر آپ کو حدیث مبارک سے شغف اور میلان ہوجائے تو یقین جانئیے آپ خوش قسمت ہیں۔
حدیث مبارک کا مطالعہ کرنے کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ آپکی زندگی کا زاویہ سیدھا، آسان اور سادہ ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ کا بھی زندگی سے متعلق زاویہ یہی تھا۔ عبادت ہو، معاملات ہوں یا کوئی اور جیز، سادگی ہی انسان کا حسن ہے۔ اپنی شخصیت میں سادگی، وقار اور زاویہ درست کرنے کا بہترین ذریعہ حدیث مبارک کا مطالعہ ہے۔
علم حدیث جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال مبارک کا مجموعہ ہے وہاں حدیث کا علم آپکو اسلامی تاریخ کا بھی وافر علم مہیا کرتا ہے۔ مثلاً صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کے معاملات، جنگیں، ایک دوسرے سے معاملات، اطوار، عربوں کا کلچر، ان کی نفسیات، زبان، عقیدت، اور دیگر معملات کا تاریخی ذخیرہ بھی حدیث میں موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حدیث مبارک تمام سلامی علوم کی بنیاد ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایک مسلمان کے لئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا ذہنی خاکہ ہونا بہت ضروری ہے۔ انسان کسی بھی بات پر عمل کرنے سے پہلے ایک ذہنی خاکہ بناتا ہے اور پھر اس پر عمل کرتا ہے۔ یہی بات دین میں بھی ہے۔ پہلے قرآن مجید اور حدیث مبارک کا مطالع کیجئیے۔ اس سے آپ کی معلومات اور فہم درست ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ عمل بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ا±سوہ حسنہ کا ذہنی خاکہ بہت ضروری ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کیسے فرمائی، قرآن کی کسی آیت یا سورت کے متعلق کیا فرمایا، گھر بار، کاروبار، نماز، روزہ، الغرض کسی بھی معاملے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا اس بات کا علم ہونا ضروری ہے۔ یہ سب حدیث مبارک کے مطالعہ سے ہی سمجھ آتا ہے۔
............................ (جاری)
حدیث جہاں تمام علوم کی آبیاری کرتی ہے وہاں علم تصوف کے شائقین، قارئین اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے علم حدیث مشعل راہ ہے۔ علم تصوف سے تعلق رکھنے والے حضرات میں ایک خاص قسم کا روحانی میلان ہوتا ہے جو کبھی کبھی وارفتگی اور شدت بھی اختیار کر جاتا ہے۔ مثلاً کبھی یوں ہوتا ہے کہ عبادت میں، نفلی نمازوں میں، اوراد و وظائف میں انہماک اور شوق اتنا بڑھ جاتا ہے کہ باقی دینی اور دنیوی معاملات متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اس میں عبادات کا کوئی قصور نہیں بلکہ اپنی شخصیت کا اعتدال یا عدم اعتدال کا معاملہ ہوتا ہے۔ حدیث مبارک کے مطالعہ سے اس کا پہلے ہی مرحلے میں علمی تدارک ہوجاتا ہے اور طبیعت اور مزاج حدیث کی موافقت اپنا لیتے ہیں۔
بطور تبرک کچھ احادیث مبارکہ پیش ہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اپنی طرف سے دین میں سختی کرنے والے ہلاک ہوگئے۔” آپ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ (صحیح مسلم۔ ریاض الصالحین)
ایک اور حدیث میں ہے
حضرت انس رضی اللہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول مسجد میں تشریف لائے تو (دیکھا) کہ ایک رسی دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا:” یہ رسی کیا ہے؟ (یعنی کس مقصد کے لئیے بندھی ہے) لوگوں نے بتلایا کہ یہ (حضرت ام المومینین) زینبرضی اللہ عنہ کی رسی ہے۔ جب وہ (عبادت کرتے کرتے) تھک جاتی ہیں تو اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتی ہیں (تاکہ سستی دور ہوجائے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اسے کھول دو! تم میں سے ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس وقت نماز پڑھے جب وہ فرحت و نشاط محسوس کرے، جب سست ہوجائے (تھک جائے) تو سو جائے۔” (بخاری و مسلم)
رسول اللہ دائمی عمل کو پسند فرماتے تھے یعنی ایسا عمل جو consistency سے کیا جائے۔ مستقل مزاجی سے کیا جائے، اگرچہ تھوڑا ہو۔
آج کے دور میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ قرآن اور حدیث کے بتائے ہوئے طریقہ سے ہٹ کر بلکل مختلف طریقہ اپنا لیتے ہیں اور خود بھی مشکل اور مصیبت میں پڑجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔ اکثر اس کی وجہ قرآن اور حدیث سے لاعلمی ہوتی ہے۔ حضرت سلطان باھو فرماتے ہیں، “علموں باجھ فقر کماوے، کافر مرے دیوانہ ھ±و” یعنی علم (قرآن اور حدیث) کے علم کے بغیر فقیری اور درویشی اختیار کرنا انسان کو کفر، گمراہی اور پاگل پن کی طرف لے جاتا ہے۔
حدیث کا علم کیسے حاصل کیا جائے؟ سب سے پہلے تو یہ عرض کروں کہ حدیث مبارک کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے۔ الحمداللہ۔ اور انشاللہ ابد تک جاری رہے گا۔ اس میں محدثین کرام اوراس میں حدیث کی خدمت پر مامور تمام مسلمانوں کی جدوجہد شامل ہے۔
مدارس میں تو یہ علم باقاعدگی سے پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر آپ حدیث مبارک کا شوق رکھتے ہیں تو ابتدائی طور پر چند آسان کتب حدیث کا مطالع فرمائیں۔ ان کو پڑھیں اور غور و فکر کریں۔ حدیث کی آسان کتب آپ کو کسی بھی بک سٹور سے مل جائںیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ علم حدیث بہت اہم اور دقیق علم ہے۔ جہاں اس میں سادگی ہے وہاں اس کے رموز اور گہرائی کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے مناسب ہے کہ آپ کسی شیخ الحدیث یا حدیث کے استاد سے رہنمائی حاصل کریں۔ جس نے خود حدیث کو سیکھا ہو اور اس کے رموز سمجھتا ہو یا ضرورت پڑنے پر کسی اور بڑے عالم کی طرف رہنمائی کر سکے۔
حدیث کی آسان کتب کا مطالع کرنا بہت فائدہ مند ہے۔ ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی “محاضرات حدیث” مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔ اس کتاب کو بطور تعرف اور introduction پڑھیے۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد عظیم فاروقی نقشبندی مجددی دامت برکاتہ کی “آئیے حدیث سیکھئے” پڑھیں۔ یہ کتاب نوجوانوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اسی طرح امام نووی رحمت اللہ علیہ کی “ریاض الصالحین” بہت مقبول اور میری پسندیدہ کتاب ہے۔ ”بلوغ المرام” اور “مشکات المصابیح” بہت عمدہ کتب ہیں۔ یاد رہے یہ حدیث کی ثانوی یعنی secondary کتب ہیں۔ حدیث مبارکہ کا بنیادی ذخیرہ اس کی primary کتب ہیں، جو کہ بہت ساری ہیں لیکن “صحائح ستہ” کو اہل سنت والجماعت میں بنیادی مانا جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ حدیث کی کوئی بھی مستند کتاب جو آپ کو پسند آئے وہ پڑھیے جس سے ذوق و شوق بڑھے گا اور انشاللہ آپ باقی بڑی کتب حدیث کا مطالع کرتے چلیے جائنگے۔
اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اسلام پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور قرآن مجید اور حدیث مبارک کا علم عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے کی رفیق عطا فرمائے۔ آمین۔