میاں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوتے ہی سرگرم ہو گئے۔
گزشتہ روز میاں نواز کو ایک مرتبہ پھر بلامقابلہ مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ یوں اب میاں جی ایک مرتبہ پھر سیاسی میدا ن میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ سچ کہیں تو ایک ہی روز میں کچھ زیاد ہ ہی سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان کے بیانات میں بھی خاصی گرمی آنے لگی ہے۔ شاید یہ موسم کا اثر ہو۔ مگر جن کو دن رات سفر و حضر میں اے سی کی ٹھنڈی ہوائیں میسر ہوں ان کو گرمی کیا کہتی ہے۔ یہ موسم کی سختیاں صرف اور صرف غریب عوام کے نصیب میں لکھی ہوئی ہیں۔ بہرحال اب انہوں نے صدر بننے کے بعد مسلم لیگ کے گرما گرم اجلاس میں جو گرمی بھرے جذبات والی تقریر کی۔ اس کا اندازہ ہال میں موجود شاید ہی کسی کو ہو گا۔ لگتا تھا پہلے والا نواز شریف ایک بار بیدار ہو گیا ہے۔ اب کی بار تو ان کی طبیعت بھی ٹھیک لگ رہی ہے۔ پھر بھی انہیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ریس میں ایکدم سے ساری توانائی ابتدا میں ہی ضائع کرنے سے بھی تھکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اچھا پہلوان کبھی میدان میں اترتے ہی تمام داﺅپیچ استعمال نہیں کرتا۔ پہلے مخالف فریق کے زور بازو آزماتا ہے پھر اپنے داﺅ پیچ۔ اس وقت میاں جی پھر بیک وقت عدلیہ اور سابق فوجی افسروں کو دعوت مبارزت دیتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا بیک وقت وہ ان دو محاذوں پر برسرپیکار ہونا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ میاں جی ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں ان کی پارٹی والے بھی زیادہ بوجھ برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر سب آرام طلب ہیں۔
کنری میں زمیندار کی نجی جیل سے بچوں اور عورتوں سمیت 33 کسان بازیاب۔
یہ قدیم دور کی بات نہیں آج کے جدید دور میں ہو رہا ہے۔ آج بھی سندھ بلوچستان میں سرداروں وڈیروں زمینداروں کی نجی جیلوں میں سینکڑوں لوگ بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں حکم عدولی پر زندان خانوں کا ایندھن بنایا گیا ہے۔ ہمارے غریب ہاری مزاروں اور کسانوں کے یہ ناخدا اپنے علاقے میں کسی کو سر اٹھانے یا پست کرنے کی، تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان سے مفت میں کام لیتے ہیں۔ جو بیگار کی اس مشقت سے انکار کرتا ہے وہ ان کی نجی جیلوں میں پھینک دئیے جاتے ہیں۔ ان کی گھر والیوں کو حویلیوں میں قید کر لیا جاتا ہے ان سے نوکروں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔ کہنے کو تو بھٹو دور میں نجی جیلوں پر پابندی لگا دی گئی تھی مگر جہاں جہاں بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ وہاں وہاں یہ نجی جیلیں بھی موجود ہیں۔ کیونکہ ان جیلوں کے مالک قانون سے زیادہ طاقتور ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کے علاقوں کی پولیس ، حوالات اور غنڈے بھی انہی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ جب تک یہ جاگیرداریاں اور وڈیرہ شاہی ختم نہیں ہوتی یہ ظالم لوگ اسی طرح ان غریب بھوکے ننگے لوگوں پر ظلم کرتے رہیں گے۔ بھارت کب کا آزادی کے بعد یہ جاگیرداریاں ختم کر چکا وہاں کسان، ہاری اور مزارع کم از کم اس طرح کے ظلم سے نکل چکے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں آج بھی مردوں، عورتوں، بچوں کو نجی جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ حکومت اور قانون کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ عدالتوں کو اگر سیاسی جنگوں والے معاملات سے فرصت ملے تو وہ ذرا اس طرف بھی توجہ دیں اور انسانوں کی غلامی کی اس بدترین شکل سے نجات دلائیں۔
بانی کا ایک اور یو ٹرن،۔مجیب والی ویڈیو شیئر نہیں کی۔
کہتے ہیں نانی نے خصم کیا برا کیا، کر کے چھوڑا، اور بھی برا کیا۔ اب یہی صورتحال اس وقت پی ٹی آئی کے بانی کو درپیش ہے جنہوں نے نجانے کیوں ایک ایسے ادارے کے خلاف منفی پراپیگنڈا ویڈیو ٹویٹ کی جس پر پورے ملک میں سخت تنقید کی گئی تو پی ٹی آئی کے صدر نے فوراً پینترا بدلا اور اپنے قائد کو بچانے کے لیے طرح طرح کی وضاحتیں کرنے لگے کہ اس ٹویٹ کی منظوری انہوں نے نہیں دی تھی۔ اب کوئی پوچھے کہ کیا یہ فرشتوں نے ان کی طرف سے جاری کی۔ اس پر اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود راہ گم کرد علاج نیست۔ جب آدمی خود راستہ گم کرے اس کا کوئی علاج نہیں۔ ویسے بھی اس وقت پی ٹی آئی کا ہر رہنما اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ لگتا ہے خود پارٹی کے رہنما چاہتے ہیں بانی جیل میں رہے اور ان کی گ±ڈی چڑھی رہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ ان کا چراغ ایسے جلنے والا نہیں۔ اوپر سے خود پی ٹی آئی کے بانی بھی پے درپے ایسی حرکات کرتے ہیں کہ حالات ان کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ اب وہ اداروں کیخلاف مہم چلا کر خود پھنستے جا رہے ہیں۔ پہلے کا م کرتے ہیں پھر یوٹرن لیتے ہیں کہ میں نے نہیں کہا۔ جو عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے وہ قابل مذمت جو حق میں فیصلہ دے وہ سب سے بہتر۔ کبھی ان کا بیانیہ امریکہ کیخلاف ہوتا ہے، کبھی اسٹیبلشمنٹ کے اور کبھی فوج کے۔ یوں بار بار یوٹرن لیتے ہوئے انہیں خود بھی یاد نہیں رہتا وہ کیا کہہ رہے ہوتے ہیں۔
اب 1971ءکے حوالے سے فوج کیخلاف منفی تاثر پر مبنی ویڈیو پہلے جاری کر کے اب اس سے جان چھڑاتے ہوئے لاتعلقی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بڑے سے لے کر چھوٹے لیڈر تک اعلان برات کرتا پھر رہا ہے۔ کچھ تو دال میں کالا ہے کہ یہ سب ایک پیج پر نظر آ رہے ہیں اعلان برات کرتے ہوئے۔
مرگلہ، مری ، کھیوڑہ کے بعد آزاد کشمیر کے جنگلات میں آتشزدگی۔
پہلے ہی ہمارے جنگلات کو ٹمبر مافیا کی حرص کی آگ جلا کر کھا رہی ہے، اب یہ آسمانی قہر سامانیوں نے بھی ہمارے بچے کھچے جنگلات کی راہ دیکھ لی ہے۔ موسم گرما میں عام طور پر درجہ حرارت بڑھنے سے جنگلات میں آگ لگتی ہے مگر اس کے علاوہ بھی انسانی غلطی سے، بے دھیانی سے خشک جھاڑیاں جل اٹھتی ہیں۔ کبھی سگریٹ جلتا پھینکنے سے کبھی ماچس کی تیلی کی وجہ سے۔ بہرحال ہمیں زیادہ پریشانی اس بات کی ہے کہ پہلے ہی ہمارے پاس دستیاب جنگلا ت بہت کم رقبے پر ہیں۔ اگر ان کو بھی آگ چاٹنے لگی تو پھر کیا بچے گا۔ یورپ اور امریکہ میں جنگلات کی آگ پر مشکل سے قابو پایا جاتا ہے۔ ہم تو ان کے مقابلے میں بہت کم جدید آلات رکھتے ہیں۔ اب ہم کیا کریں۔ آرمی اور نیوی کے ہیلی کاپٹر کام کر رہے ہیں مگر یہ بہت کم ہیں۔ فائر فائٹر اتنی بلندی پر گاڑیاں لے جا نہیں سکتے۔ اب یہی ہے کہ بارش ہو جائے تاکہ جلد از جلد آگ بجھے اور نقصان کم ہو۔ آزاد کشمیر کے جنگلات میں آگ سے کافی نقصان ہو سکتا ہے۔ مارگلہ اور مری کے جنگلات پر کم رقبے میں آگ لگی ہے۔ کھیوڑہ میں گھنے جنگلات نہیں ہیں۔ اب دیکھنا ہے آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان اس آفت سے کیسے نجات پاتی ہے جو قیمتی لکڑی جلا رہی ہے۔ ذرا یہ بھی دیکھا جائے یہ کہیں ٹمبر مافیا کی شرارت تو نہیں۔