ظہور کاظمی
اِمام العارفین ابو محمدالسیّد احمد حسین شاہ گیلانی ؒ کے فرزندِاوّل شہزادۂ غوث الوریٰ ،پیکر ِصدق و صفا،آفتابِ ِولایت،ماہتاب ِ شریعت وطریقت،سخی ٔ کامل حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی ؒ کے حلقہ بگوش تمام عقیدت مندوں ،سعادت مندوں کے لئے آپ کے عرس پاک کی مناسبت سے پیغام ہے کہ سایۂ فقر میں اپنی دُنیا اور آخرت کو سنوار لیں۔ سخی ٔ کامل حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی نے طریقت کی دُنیا میںعبادت ،ریاضت اور محبت کا اک نیا انداز متعارف کرایا۔ اپنے شیخ سے محبت اِس والہانہ پن سے کی کہ دُنیا عش عش کر اُٹھی۔آپ نے اپنے مرشد کی خدمت اور فرمانبرداری اِس انوکھے انداز سے کی مرید سے محبوبِ خاص کے بلند ترین منصب تک پہنچے۔سخاوت ،عطا ،در گذر آپ کی گھٹی میںپڑی ہوئی تھی ۔ہر کسی کو اِس کی طلب سے بڑھ کر عطا کرتے اگر اُس وقت گرہ میں کچھ نہ بھی ہوتا تو اُدھار پکڑ کر بھی سائل کا سوال پورا اور حاجت روائی کرتے۔اِس کا ذکر نبی اکرم ؐ کی حیات طیّبہ کے بعد اولیاء عظام کی لڑی میںآپ ہی کی سیرت میں ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو سخی ٔ کامل کا خطاب دیا گیا۔حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانیؒ ؒنہایت خوش مزاج،خوش اخلاق،خوش خلق،اور اخلاق ِکریمانہ کے مالک تھے۔آپ کی محفل میں ہر مکاتب ِفکر کے لوگ آتے تھے لیکن ایسا کبھی نہ سُنا گیا کہ کسی کی حاجت روائی نہ ہوئی ہو۔ بیشتر لوگوں کو حاجت پیش کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔آپ کشف کے ذریعے دِلوں کا حال معلوم کر لیتے اور بن مانگے ہی عطا کر دیتے۔ آپ دورِ جوانی میں بھی بڑے بلند اخلاق اور ستھرے کردار کے مالک تھے۔کاشتکاری کا شوق رکھتے فرماتے کیونکہ یہ سُنتِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہے۔ اِس لئے مَیں اِس کام میں فخر محسوس کرتا ہوں۔جب فصل کٹ جاتی تو تقسیم کے لئے پیمانہ ٔ ’’سخاوت‘‘ ہوتا۔جو کہ آپ کے آباء کا طریقہ تھا۔سخی ٔ کامل کاشتکاری سے فرا غت کے بعد شام کو گھر تشریف لے آتے۔دِن بھر کی تھکاوٹ کے با وجود نماز عشاء سے تہجد تک اپنے والد مرشد ِعظیم کی خدمت میں موجود رہتے۔آپ نے تقریباً 36سال اپنے مرشد کریم کے زیر سایہ تربیت پائی اور اُن کے ’’علمِ لدنی ّ‘‘سے بھر پور حصہ پایا۔آپ کو تمام روحانی علوم پر دسترس حاصل تھی ۔جو مسئلہ کسی کی سمجھ میں بیان کرنے سے نہ آتا وہ نظر سے سمجھا دیتے۔آپ نے غریب گھرانوں کے وظائف مقرر کر رکھے تھے۔انتہائی خاموشی سے اُن کی باقاعدہ مدد کی جاتی تھی۔انہیںضروریاتِ زندگی پہنچائی جاتی،لیکن کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔آپ کے وصال کے بعد یہ بھید کُھلا۔ایک رجسٹر میں اُن کے نام اورپتے درج تھے۔ اسی طرح اپنے عزیز اور رشتہ داروں کی مدد بھی فرماتے لیکن اِس طرح مدد کی جاتی کہ دائیں ہاتھ سے دیتے بائیں کو خبر نہ ہوتی۔آپ اکثر و بیشتر سیالکوٹ تشریف لے جاتے ،راستے میں کھڑے سائل بھی آپ کے دست ِسخاوت سے خوب حصہ پاتے ۔۔آپ فرماتے کہ جو شریعت کا پابند نہ ہو اُسے ولی نہ سمجھو خواہ وہ ہوا میں اُڑتا نظر آئے۔آپ وحدت الوجود کے قائل تھے اور محبت ِ شیخ کے ذریعے تصوّف کی منا زل طے کرواتے تھے۔حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی ؒ10 محرم الحرام،جولائی1926 ء بروز جمعرات بٹالہ شریف ’’انڈیا‘‘ میںپیدا ہوئے۔آپ کی آمد کی بشارت حضرت محبوب ِذات کوکافی عرصہ سے دی جا رہی تھیں۔مشیت کی رضاپر حضرت محبوب ِذات ؒنے آپ کا اسم مبارک افضال احمد رکھا۔اِس طرح فیضان ِولایت کا یہ سلسلہ حضرت محبوب ِ ذات ؒ سے آپ کو منتقل ہوا۔حضرت سیّد افضال احمد حسین گیلانی ؒنے طریقت کی دُنیا میںعبادت و محبت کا اِک نیا انداز متعارف کرایا۔ا20اور 21مارچ 1998 ء۔20 ذیقعد کی درمیانی شب رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب آپ اِس دارِ فانی سے عالم بقاکو سدھار گئے ساری عمر جس ربّ سے ملنے کے شائق تھے اُسی ربّ کی جانب لوٹ گئے۔ اِس دارِ فانی سے پردہ کر جانے کے بعدخاندانی روایت اور دستور ِطریقت کے مطابق آپ کے بڑے صاحبزادے صاحبزادہ پیرسیّدمحمد مبارک علی شاہ گیلانی کوحضرت محبوبِ ذات السیّداحمد حسین شاہ گیلانی ؒ اور حضرت سخی ٔکامل سیّد افضال احمد حسین گیلانی محبوبِ خاص کے آستانہ عالیہ کی خدمت کے لئے بحیثیت سجادہ نشین فرائض اور آستانہ عالیہ سے وابستہ روش و تابندہ روایات کی پا سداری کی ہے۔عرس کی تقریبات ہر سال حضرت قبلہ سیّدامجد علی امجدؔ کی سرپر ستی میںہوتی ہیں۔