اسلامی فلسفہ حیات اور ادائیگی ء حج

 امجد محمود فلکی
ہمارے روز مرہ کی زندگی میںدین اسلام ہمیں قدم قدم پر حرام اور حلال میں فرق رکھنے کی ہدایت دیتا ہے ۔ روز مرہ کے مشاہدات میں اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ فرض کریں دو افراد۔۔ ایک تندور پر جاتے ہیں اور ایک روٹی لیتے ہیں۔لیکن ایک شخص نے جو رقم ادا کی وہ حرام کمائی سے تھی جبکہ دوسرے شخص نے جو پیسے ادا کئے وہ حلال ذرائع آمدن سے تھے۔ دونوں اشخاص گھر جاتے ہیں خود بھی کھاتے ہیں اہل و عیال بھی۔۔۔ ماہر غذائیت تو کہے گا کہ روٹی نے دنوں پر یکساں اثر کیا دونوں کی بھوک مٹ گئی۔۔۔ لیکن عند اللہ یہ نوالے ، جو کھائے گئے اور کھلائے گئے وہ حرام و حلال تھے۔۔۔۔ !! 
حرام لقمہ بظاہر نقصان دہ ثابت نہ ہو لیکن جزا اور سزا کے دن یہ بہت نقصان اور عذاب کا موجب ثابت ہوگا۔اس ضمن میں ایک حدیث شریف آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہوں گا۔۔طبرانی میں یہ حدیث موجود ہے اسے حضرت ابو ہریرہؓ نے روایت کیا کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ "جب کوئی شخص پاک اور حلال مال سے حج کا قصد کرتا ہے اور دوران سفر وہ تلبیہ پڑھتا ہے تو عرش سے ندا آتی ہے "لبیک و سعادیت" کہ ہاں میں بھی (تیرے لئے حاضر ہوں) اور تیرے لئے حج سعادت بخش ہے۔ 
اس کے برعکس اگر کسی نے حرام ذرائع سے حاصل کردہ رقم سے حج کیا ، سفر کی مشکلات برداشت کرنے کے بعد بیشک خانہ کعبہ کے سامنے بھی کہے کہ لبیک الھم لبیک تو کہا جاتا ہے لا لبیک ولا سعادیت۔۔۔۔ کہ نہیں نہ ہم تیرے لئے حاضر ہیں نہ تیرے لئے کوئی سعادت ہے تیرا حج قبول نہیں مبرور نہیں بلکہ مردود (رد کردیا گیا) ہے۔"یہ تو ہو گئی مال سے متعلق حقیقت! 
اللہ کے گھر کے مہمانوں کیلئے! اس ہی طرح حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ
 "ایک مومن مسلمان کی عزت ، خانہ کعبہ کی عزت سے بڑھ کر ہے۔۔۔!!"تو ہمیں چاہئے کہ وہاں جانے سے پہلے خوب سمجھ لیں کہ آیا ہم ایک عبادت کرنے جا رہے ہیں یا شکایتوں کا انبار لگانے جا رہے ہیں۔ ہم وہاں اللہ رب العزت سے اپنے گناہ بخشوانے جا رہے ہیں یا مزید گناہ لکھوانے جا رہے ہیں۔ 
صبر و تحمل مانگنے جا رہے ہیں یا بے صبری کا تقاضا کرنے جا رہے ہیں۔ اس مقدس سر زمین پر قدم رکھنے کا سوچنا چاہیے جہاں انبیاء￿  کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے ۔
 ہمارے دل میں اس مسجد الحرام  کا احترام واجب ہے جہاں  ہمارے  اور آپ کے آقا حضور اکرم ؐ کو معراج کے لئے بلایا گیا۔ اس عرفات کا سوچنا چاہیے جہاں سے میرے اور آپ کے ابا جان حضرت آدمؑ دنیا میں بھیجے گئے!
اس منی کا سوچنا چاہیے جہاں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو قربان گاہ لیجانے کا ارادہ کیا اور شیطان کو کنکریاں ماریں۔۔۔ مزدلفہ کا سوچنا چاہیے جہاں کی شب بیداری فضیلت کے اعتبار سے  لیلتہ القدر سے کم نہیں۔ اس جنت المعلیٰ کا سوچنا چاہیے جہاں حضرت محمد مصطفی ؐ کی پہلی زوجہ مطہرہ بی بی خدیجہ کی قبر مبارک ہے۔ مسجد جن جہاں جنات کی جماعت نے اسلام قبول کیا۔ 
الغرض آپ سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ یار مجھے میرے رب تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے میرا انتخاب کیا اور مجھے یہ شرف بخشا کہ میں یہ عظیم مقامات دیکھ سکوں نہ جانے پھر اگلا بلاوہ آئے یا نہ آئے! لہذہ وقت کو قیمتی جانتے ہوئے مجھے یہ دنیاوی معاملات میں الجھنا نہیں ہے!! تکالیف برداشت کرنے پر ہی تو اجر ہے۔ اپنے آپ سے عہد کریں کہ جتنے بھی دن یہاں ہوں، میں صبر کا کمال مظاہرہ کروں گا اور اپنے وقت کو غنیمت جانتے ہوئے یہاں کے انوار و برکات کو خوب سمیٹوں گا!!  
سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کی مدد بھی کروں گا اور خندہ پیشانی کو خود سے جدا نہیں کروں گا۔ 
جھوٹ بول کر ، جھوٹا عذر پیش کر کے فائدے حاصل نہیں کروں گا ، جھوٹا ویکسین کارڈ یا  جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ نہیں جمع کرواؤں گا۔ اگر یہ قانون ہے کہ مطاف میں صرف عمرہ والے افراد داخل ہوں گے تو میں نے صرف اوپری منزل میں طواف سے بچنے کے لئے خود کو معتمر ظاہر نہیں کروں گا۔ 

ای پیپر دی نیشن