اسلام آباد ( خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔ بانی پی ٹی آئی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔چیف جسٹس پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے پوچھا کہ خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کریں گے؟عمران خان نے جواب دیا کہ سر میں آدھہ گھنٹہ دلائل دینا چاہتا ہوں مجھے تیاری کیلئے مواد ملتا ہے نہ ہی وکلاء سے ملاقات کرنے دی جاتی ہے، سر میری قانونی ٹیم سے ملاقات کرائی جائے، پتا نہیں پھر مجھے آپ سے بات کرنے کا موقع ملے یا نہ ملے، 8 فروری کو ملک میں بڑا ڈاکا مارا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات اس وقت نہ کریں ہم ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ہماری دو درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں وہ اپ کے پاس موجود ہیں وہ سن لیں۔چیف جسٹس نے بانی پی ٹی ائی سے پوچھا اس میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ تو عمران خان نے جواب دیا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان ایک سینئر وکیل ہیں انہیں ملک سے باہر جانا تھا تو انہیں ایک مقدمے میں ان کی مرضی کی تاریخ دی ہے۔بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے جس کو ایک کرنل صاحب چلاتے ہیں، اپ ان کو آرڈر کریں کہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کروانے دیں، وہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے نہیں دیتے۔عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو کیس کا مکمل ریکارڈ آج ہی فراہم کرنے کی ہدایت کردی اور حکم دیا کہ وکلا کی ان سے ملاقات کرائی جائے، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کیلئے ایڈووکیٹ خواجہ حارث کے ساتھ دو وکلا ء جائیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ امید ہے خواجہ حارث کو گرفتار نہیں کرلیا جائے گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ وزیراعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا تھا؟، فیصلہ پسند آجائے تو جج ٹھیک ، نا پسند آئے تو جج کالی بھیڑیں بن جاتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ الفاظ موجود ججز کیلئے استعمال نہیں کئے گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم صاحب کو جا کر بتا دیں عدلیہ میں کوئی کالی بھیڑیں نہیں ہیں، اگر وزیراعظم صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ میں کالی بھیڑیں ہیں تو انکے خلاف ریفرنس فائل کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب وزیراعظم صاحب کو بتادیں ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالے بھونڈ ہیں۔ اس پر وزیر اعظم کو شک کا فائدہ دیا جاسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جو حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آجاتے ہیں۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں 100 ملین روپے کی کرپشن پر نیب کو کارروائی کا کہا گیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے، اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنا نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کی تحقیقات کی بات کی، کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنا دیا جاسکتا ہے، ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں، کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہئے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک صاحب ہم آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، آپ تو آرڈیننس جاری کرکے درخواست گزار کے ساتھ جاملے ہیں، کیا آرڈیننس کے ذریعے قانون میں تبدیلی کسی خاص فرد کیلئے ہے، کیا آرڈیننس لاکر پارلیمنٹ کی اتھارٹی کو نیچا نہیں دکھایا گیا۔فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ آئی بی اور حساس ادارے میرا پیچھا کررہے ہیں، مجھے دو دفعہ جہاز سے اتارا گیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواب میں کہا کہ ایسی باتیں ناکریں، کہیں ایسا نا ہوکہ آپ کے خلاف بھی سینیٹ میں تقریریں شروع ہوجائیں، کیا کسی سیاستدان نے نیب کیسز بھگتنے کے بعد کبھی پریس کانفرنس کی ہے کہ اس کیساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کی کارروائی آج لائیو نشر کرنے سے متعلق درخواست دار ایک سے مسترد کر دی ، جسٹس اطہر مناللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا ۔ عدالت نے نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جون تک ملتوی کردی۔
وزیراعظم کو بتا دیں، ہم کالے بھونڈ، کالی بھیڑیں ہیں تو ریفرنس لائیں: جسٹس اطہر
May 31, 2024