سپریم کورٹ میں دوران سماعت عمران خان اور چیف جسٹس کے درمیان کیا مکالمہ ہوا؟

 سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے پہلے باضابطہ مکالمے میں شکوہ شکایات کیں۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان سے پوچھا کہ یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے، آپ اپنے دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے، عمران خان نے کہا میں قید تنہائی میں ہوں، قانونی ٹیم سے ملاقات نہیں کرنے دی جاتی، مقدمات کی تیاری کے لیے مواد بھی نہیں ملتا، یہاں لائبریری اور دیگر مواد دستیاب نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم آپ کو کیس سے متعلقہ تمام مواد فراہم کریں گے اور اگر آپ کو لیگل ٹیم سے متعلق رہنمائی درکار ہو تو اس کا بھی بندوبست کیا جاسکتا ہے، جس پر عمران خان نے کہا میرے لیے یہ کیس سپریم نیشنل انٹرسٹ کا کیس ہے۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ عمران خان سے ان کےوکیل خواجہ حارث کو ملنے دیا جائے، 50 لوگ ساتھ لےکر نہ جائیں، ایک دو وکیل جب چاہیں عمران خان سے مل سکتے ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا وکیل پر انحصار کریں گے؟اس پر بانی پی ٹی آئی نے دلائل کے لیے عدالت سے آدھا گھنٹہ مانگ لیا۔ دلائل کےدوران بانی پی ٹی آئی نےکہا کہ 8 فروری کو ملک میں سب سے بڑا ڈاکا ڈالا گیا، جس پر چیف جسٹس نے انہیں روک دیا اور کہا کہ یہ بات اس وقت نہ کریں ہم ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔سماعت کےدوران چیف جسٹس نے یہ بھی بتایا کہ مقدمے کی سماعت کی لائیو اسٹریمنگ کی درخواست چار ایک سے مسترد کی گئی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔اپیلوں پرمزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔

ای پیپر دی نیشن