آزاد کشمیر کے پر عزم وزیراعظم سے یادگار ملاقات


حرفِ قلندر  …احمد خان 
ahmadkhan9421@yahoo.com

 وہ 22مئی بدھ کی سنہری شام تھا اور ہم سعید مظہر شاہ کی حلف برداری میں کشمیر ہاؤس میں موجود تھے وہاں اور بھی بہت سے مہمان تھے ،صدرآزاد کشمیر طویل بیماری کے بعد حلف برداری کی اس تقریب میں وزارت کا حلف لینے آئے تھے ، مہمانوں کے اچھے خاصے رش کی وجہ سے وہاں خاصی ہٹو بچو کی کیفیت تھی۔ قابلِ ذکر بات بہت اہم تھی کہ وہاں خواجہ عبدالمتین جو وزیراعظم کے'' یار غار'' ہیں اور ہمیشہ سے متحرک صحافی بھی ہیں وہ لوگوں کو بڑے کھلے دل سے مل رہے تھے یہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی کہ کشمیر ہاؤس پرتپاک طریقے سے استقبال ہوا ہمارے اندر کا قلم کار وہاں پہنچتے ہی انگڑائیاں لینے لگا اور ہم نے سوالوں کا تانتا باندھ دیا  وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے مزید شفقت فرماتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے موجودہ حالات اور حالیہ احتجاجی لہر کے حوالے سے سوالوں کے جوابات کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر شخصیت سے ملاقات کرنی چاہیے اور وہ ہیں وزیراعظم ازاد کشمیر میرے لیے یہ بات ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھی کچھ ہی دیر میں ایک مرنجاں مرنج شخصیت کمرے میں وارد ہوئی ان کی چال ڈھال سے کہیں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ  ریاست کے وزیراعظم ہیں پرتپاک اور محبت بھرے انداز کیا اور ہمیں ملے اس کے بعد مجھے اپنے قریب بلایا اور کہنے لگے آپ یہاں بیٹھیے اپ کے جو سوالات ہیں بلا تردد پوچھیں پھر میں نے ان سے چند باتیں عرض کی آزاد کشمیر کی موجودہ احتجاجی تحریک جو آٹا اور بجلی کے حوالے سے تھی اس حوالے سے مجھے ایک نجی ٹی وی کو دیا گیا ان کا  سال پہلے کا انٹرویو بھی یاد تھا جب میں نے ان کو اس کا حوالہ دیا انہوں نے کہا کہ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ہم نے تو ایک سال پہلے ان حالات کا عکس پیش کر دیا تھا ایک سیاست دان کی بصیرت کا یہی تقاضا ہوتا ہے کی وہ عوامی مزاب کو دیکھتے ہوئے حالات کی صحیح ترجمانی کرے ، مہنگائی اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ دیکھتے ہوئے یہ رد عمل ہونا ہی تھا اس معاملے میں انہوں نے کہا کہ آٹا وفاقی حکومت ریاست کے لیے پنجاب سے خرید کر ریاست کے سپرد کرتی ہے، کچھ شکایات ان کی واپڈا سے تھی اور کچھ شکوے کار پردازان حکومت سے بھی  کہ جو کسی نہ کسی شکل میں سسٹم کے اندر رہتے ہوئے وفاق کے زیر انتظام علاقوں کے انتظامی معاملات میں اپنا رسوخ قائم رکھتے ہیں ساتھ ساتھ مجھے حیران کر دینے والی بات موصوف کی سادہ طبیعت تھی پھر میں نے یہ کہا کہ کشمیر کے اندر لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی اشرافیہ اور افسران حکومتی وسائل بے دریغ خرچ کرتے ہیں اس پر انہوں نے برجستہ کہا آپ جس دفتر میں بیٹھے ہیں اس کا خرچہ کروڑوں سے لاکھوں نہیں ہزاروں میں آ چکا ہے ، میں اپنے ذاتی گھر میں قیام صرف اس لیے نہیں کرپاتا کہ وہاں سیکیورٹی اور پروٹوکول پہ لاکھوں روپے خرچ آتا ہے دفتر کا اخراجات کا  عدد جو انہوں نیبتایا حیران کن ہی نہیں خوشگوار بھی تھا کہنے لگے میں اس کی تمام تر تفصیلات آمدہ بجٹ میں بھی جاری کر رہا ہوں کہ ہم نے کہاں کہاں سے کتنے کتنے کروڑ حکومت کا بچایا ہے اس طرح سے ہم ان معاملات کو لے کر اگے بڑھ رہے ہیں بجلی کا معاملہ تو وہ کہنے لگے کہ بجلی کے اندر ہم نے لاکھوں میگا واٹ بجلی پیدا کر کے پاکستان کے میں شامل کی ہے ہم اتنا تو حق رکھتے ہیں کہ اس سسٹم کے اندر سے ہمارے لیے کچھ ریلیف پیدا کیا جائے دے دیتے ہیں اپ کو بیری لگ جاتا تو ریلیف دیتے ہیں اور وہ کشمیر جہاں سے اپ کا پانی اتا ہے وہ کشمیر جس نے قبریں اپنے ابا کی قبریں اپنی ابائے زمینیں دے کر آپ کے لیے منگلا، نیلم جہلم اور جاگراں جیسے ہائیڈل پاور پروجیکٹ تعمیر کیے اس کے لیے آپ کو کوئی نرم راستہ اختیار کرنا چاہئے آزاد کشمیر کے اس سیاست دان سے  جس نے سپیکر ،قائم مقام صدر ،وزیر اور اب وزارت عظمی سب اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل کیا  ہم نے ان کی مستقبل کی سیاست کی بابت سوال کیا  تو انہوں نے اس مصرعے پہ مسکرا کر بات ختم کردی" کہ کون جیا ہے زلف کے سر ہونے تک" الیکشن آئیں گے تو سوچیں گے کیا کرنا  ہے زندگی میں اتنی سیاست کر لی، اتنے عہدے دیکھ لیے کہ اب  کسی چیز کی تمنا باقی نہیں رہی اس معاملے میں ہم کوئی رائے نہیں دے سکتے کہ کیا  وہ سیاست سے اپنی دستبرداری کا اعلان کر رہے تھے یا  فی الحال اپنے فیصلے سے کسی کو آگاہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے لیکن پاکستان سے ان کی محبت اور  وابستگی کو میں نے اٹوٹ پایا اس بدعنوانی کے خاتمے اور حکومتی اخراجات میں کمی کے معاملے میں اپنے سابقہ اقدامات پر اطمینان اورمزید بہتری کے لیے ان کا عزم قابلِ دید تھا،انہوں نے جو چیزیں اور اعداد شمار میرے سامنے رکھے زبردست تھے انہوں نے کہا کہ ہماری سب کے طور پر پاکستان کے ساتھ چلتی ہے صحافتی حلقوں سے درخواست نما شکایت کرتے ہوئے لینے لگے کہ ہمارے اقدامات کو قومی چینلز اور اخبارات میں اس طرح جگہ نہیں ملتی لیکن آپ ہمارے آمدہ بجٹ کے اعداد و شمار سے دیکھ لیں گے کہ ریاستی حکومت نے گڈ گورننس ، اخراجات میں کمی، پروٹوکول کلچر کا خاتمہ اور بدعنوانی پہ زیرو ٹالرینس کا جو نظام قائم کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے گفتگو تو بھمبر کا یہ دبنگ چوہدری  زبان سے کر رہا تھا لیکن زبان حال ( نشست ، خورد، برخواست) میں مجھے کہیں بھی چورنگی نظر نہیں آئی? وزیراعظم سے میری ملاقات نے کشمیر کی سیاست میں ایایسی شخصیات کے عزم کو ان کی پاکستان سے محبت  کے معاملے میں  میرے ذہن کی تصویر کو مزید روشن کر دیا کشمیر کی سیاست میں اگر ایسے لوگ رہیں گے تو کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت کے اٹوٹ رشتے کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا؟

ای پیپر دی نیشن