جلتی ،ابلتی  اور ڈوبتی دنیا 

                                                                    
ڈاکٹر منور انجم 
" ہمارے پاس صرف دو سال بچے ہیں کہ ہم کرہ ارض پر حیات کو جلنے سے بچا سکیں"۔یہ الفاظ کسی ایک ماہر کہ نہیں بلکہ اقوم متحدہ کے موسمیاتی شعبہ کے سربراہ کے ہیںجو انہوں نے کچھ دن پہلے کہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس تباہ کن حالت سے بچنے کے لئے جن لوگوں کو کچھ کرنا ہوگا وہ ہم سب لوگ ہیں۔  دنیا میں گرمی بڑھی رہی ہے اس کو گلوبل وارمنگ کا نام دیا گیا ,لیکن اب اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ دنیا کو ابلتی ہوئی صورت حال کا سامنا ہے ،اسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں کی جگہ" موسیاتی تباہیوں "کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔تین سال پہلے ایک پروفیسر نے نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور جیسے شہروں کے پاس زیادہ سے زیادہ پانچ سال بچے ہیں۔اب چونکہ یہ بات انٹرویو کا محض ایک چھوٹا ساحصہ تھی،جبکہ دیگر گفتگو کسی اور موضوع کے متعلق تھی تو بات زیادہ نمایاں نہ ہو سکی ۔لیکن اسی پروفیس نے پھر اسی موضوع پر ایک تحریر بھی لکھ ڈالی ۔اس کے علاوہ سموگ کا مسئلہ تو چل ہی رہا تھا تو اس سلسلے میں بات محض خبروں،تبصروں اور ٹاک شوز کی حد تک محدود رہی ،لیکن پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسرنے خانسپور کی پہاڑیوں پر جا کر ایک تجربہ مصنوعی بارش کا اس نیت سے کیا کہ آلودگی اور بالخصوص سموگ کے خاتمے کے لئے اس بارش کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔واضح رہے اس سے اس قسم کی بارش کا مقصد پانی حاصل کرنا ہی تھا ۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ نام متحدہ عرب امارات کا آتا تھا اور اب بھی ہے جو سال میں تقریبا ایک سو بیس دن یہ بارش برسا کر پینے کے لئے پانی حاصل کرتا ہے۔
اب گزشتہ سال پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں سرکاری طور پر سموگ کے خاتمے کے لئے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا ،یہ بارش زیادہ نہیں تھی لیکن پھر بھی لاہور شہر نے پانچ دن تک اس کا اثر محسوس کیا ۔اب مصنوعی بارش کا دوبارہ ذکر اس لئے کیا جا رہا ہے کہ گرمی کی شدید لہر کو کم کرنے یا اس کو توڑنے کے لئے بھی اسی بارش سے کام لیا جاسکتا ہے۔اب آپ کے ذہن میں آرہا ہوگا کہ اس بارش کے لئے تو بادلوں کا ہونا ضروری ہے ،تو گذارش کچھ یوں ہے کہ بہت دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بادل آتے تو ہیں لیکن بن برسے چلے جاتے ہیں،کیونکہ ان میں پانی کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی کہ برس سکیں تو اسی کام کے لئے مصنوعی بارش کا عمل 
CLOUD SEEDNIG" "کی جاتی ہے ،جس میں بادلوں کے اوپر جہاز کی مدد سے نمک کا چھڑکائو کیا جاتا ہے۔اب جون کے شروع ہوتے ہی بادلوں کے آنے کا امکان ہے ،اب متعلقہ شعبے کو تیار رہنا ہوگا کہ جیسے ہی بادل آئیں تو ان پر چھڑکائو کر کے انہیں برسنے پر مجبور کیا جائے۔اب ایک بارش سے ،بعد کے تین سے چار دن گرمی میں جہاں کمی لائی جا سکتی ہے وہیں پر اس بارش کے وجہ سے زمین کو ہانی بھی حاصل ہوگا،جس سے زیر زمین پانی کی سطح میں بہتری آتی ہے۔سب سے بڑہ کر فضاء کی آلودگی بھی کم ہوجاتی ہے۔واضح رہے جنوبی ایشیاء کے تین بڑے ممالک بھارت ،پاکستان اور بنگلہ دیش دنیا کے پہلے تین آلودہ ممالک بھی بن چکے ہیں۔اب بات شہروں کی کی جائے تو لاہور اور دہلی ایسے شہر ہیں جو آلودہ ترین شہروں کی گہرست میں سر فہرست رہتے ہیں۔نیو دہلی میں تو ایک خبر کے مطابق ،52.3ڈگری تک بھی جا پہنچا ہے۔دہلی کو گیس چیمبر ،یعنی دھکتی جگہ بھی کہا جاتا ہے۔یہاں پر ایک تلخ خبر بھی یاد دلاتے چلیں کہ پاکستان میں لاہور شہر میں مصنوعی بارش کے بعد دہلی سرکار نے بھی یہی فیصلہ کیا لیکن اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا،جبکہ اس شہر کی سموگ والی آلودگی کا یہ عالم تھا کہ کانگریس کی اعلی ترین عہدیدار سونیا گاندھی کو جے پور شہر میں منتقل کرنا پڑا تھا ۔
سونیا گاندھی کا تعلق اٹلی سے ہے اور وہ مرحوم راجیو گاندھی سے شادی کے بعد بھارت منتقل ہوئیں تو یہ انکی زندگی کی پہلی بڑی ہجرت تھی،جبکہ دوسری ہجرت انہیں سموگ کی وجہ سے کرنی پڑی۔اب اس ہجرت کا ذکر اس لئے ناگزیر بنتا ہے کیوںکہ،اہرین کے مطابق اب ماحولیاتی تباہیاں عالمی ہجرت کی وجہ بن چکی ہیں۔اب اس ماحولیاتی جبر کا شکار چونکہ جنوبی ایشیاء ہی ہے تو اس لئے ہجرت کی یہ وجہ اور شکل کا سامنا بھی یہی علاقہ ،جسے برصغیر بھی کہا جاتا ہے،کرے گا ۔یہاں پر یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کو اس وقت زیادہ آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ہو ا کا رخ بھات سے ان ممالک کی طرف ہوتا ہے۔بنگلہ دیش اس سلسلے میں زیادہ متائثر اس لئے بھی ہوتا ہے کہ اس کی تین اطراف کی زمینی سرحد بھارت سے ہی ملتی ہے۔ماحولیاتی آلودگی ہو ،پانی کی کمی ہو اور سب سے بڑہ کر بڑھتی ہوئی آبادی ،ان سب کو ملا کر جنوبی ایشیاء کو مستقبل کا افریقہ کہا جاتا ہے۔
اب یہاں سابق امریکی صدر اوبامہ کا 2015 کا دورہ یاد آرہا ہے ،جب انہوں نے نیو دہلی میں دو دن قیام کیا تھا تو ان کے ساتھ موجود ماہرین نے ان کو انوکھے انداز میں کچھ یوں انکشاف کیا تھا ،کہ جناب صدر آپ کی زندگی کے کچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے دنیا کے سب سے آلودہ شہر میں قیام کیا ہے۔اس وقت بھی بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ہی تھے ،جبکہ مہینہ جنوری کا تھا لیکن سموگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔اب باقی اندازہ خود لگا لیں کہ اس دورے کو نو سال گزر چکے ہیں،جبکہ حالات بہتری اس ابتری کی طرف اس حد تک جا چکے ہیں کہ اب جنوبی ایشیاء کے متعلق کہا ماہرین کہہ چکے ہیں کہ اس کے شہروں میں زندگی گذارنے کا مطلب ایک انسان کی اوس زندگی میں چھ سے سات سال کی کمی ہے ۔اب گرمی کی لہر کی بات کریں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ آئیندہ سالوں میں اس گرمی سے متائثر ہونے والوں کی شرح تیس فیصد تک بڑہ جائے گی۔رہی بات مصنوعی بارش کی تو بھارت اتنا بڑا ملک ہونے کے تقریبا ہر روز اس کے کسی نہ کسی حصے میں بادل موجود ہوتے ہیں،تو یہ اپنا دھیان اس طرف دے کر بارش برساسکتا ہے۔مگر تا حال اس کا دھیان سی پیک کو خراب کرنے اور چین کے خلاف استعمال ہونے تک ہی محدود ہے۔   

ای پیپر دی نیشن